Maktaba Wahhabi

294 - 452
جواب: وصیت کا ایک ضابطہ ہے کہ جو شرعی طور پر کسی کا وارث ہے اس کے متعلق وصیت نا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کاحق ے دیا ہے، اس لیے وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے۔ ‘‘[1] اس حدیث کی بنا پر باپ کی ایک بیٹے کے نام وصیت باطل ہے لہذا اس کا نفاذ جائز نہیں ہے، اگر دیگر ورثا اس وصیت پر اپنی رضا مندی کا اظہار کر دیں تو چنداں حرج نہیں، اگر وہ اس پر راضی نہ ہوں تو شرعی ضابطہ کے مطابق متوفی کی جائیداد تقسیم کی جائے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے اولاد میں وراثت کا اصول بایں الفاظ بیان کیا ہے:’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کر تا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ ‘‘[2] اس آیت کریمہ کے پیش نظر اگر میت کے ذمے قرض ہے تو اسے اتارا جائے پھر تقسیم کے لیے اس جائیداد کے آٹھ حصے بنا لیے جائیں، دو دو حصے فی بیٹا اور ایک ایک فی بیٹی کو دے دیا جائے۔ ہم اس مناسبت سے والدین کو نصیحت کر تے ہیں کہ جائیداد کے سلسلہ میں کوئی ایسی وصیت نہ کریں جو ظلم و زیادتی پر مبنی ہو۔ کیونکہ دنیا کا مال و متاع قیامت کے دن کام نہیں آئے گا۔ اور نہ ہی اولاد کچھ نفع دے سکے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ اس دن مال و اولاد کچھ کام نہ آئے گی۔ ‘‘[3]اس لیے وصیت کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے ہوئے اسےسر انجام دیا جائے، اگر کوئی نا جائز وصیت کر گیا تو اسے نافذ نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ پسماند گان پر اس کی اصلاح ضروری ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ جو شخص وصیت کر نے والے کی طرف سے طرفداری یا زیادتی کا اندیشہ رکھتا ہو تو اس کی اصلاح کر دے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘[4]صورت مسئلہ میں وصیت کالعدم ہے اور ورثا کو چاہیے کہ وہ متوفی کی جائیداد کو ضابطہ شرعی کے مطابق تقسیم کریں۔ (واللہ اعلم) سوال:ایک آدمی کی زندگی میں اس کی شادی شدہ صاحب اولاد بیٹی فوت ہو گئی ، اس کے بعد وہ خود بھی فوت ہو گیا ، اس کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا زندہ ہے جبکہ فوت شدہ بیٹی کا ایک بیٹا اور بیٹی موجود ہے۔ بیوی بھی حیات ہے، اس صورت میں فوت ہونے والے کی جائیداد کس طرح تقسیم ہو گی ، اس کا نواسا اور نواسی بھی دعویدار ہیں کہ ہمیں بھی اس جائیداد سے حصہ دیا جائے، کتاب و سنت کے مطابق اس کا حل بتائیں۔ جواب: قرآن و سنت کے مطابق جائیداد کی تقسیم کا ایک اصول یہ ہے کہ میت کے ساتھ اگر کسی کا قریبی رشتہ ہے تو اس کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محروم ہو تا ہے۔ مثلاً بیٹے کی موجودگی میں اس کا پوتا اور بیٹی کی موجودگی میں اس کا نواسا وغیرہ محروم ہوتے ہیں، چونکہ صورت مسؤلہ میں میت کے قریبی رشتہ دار بیٹا اور بیٹیاں موجود ہیں اس لیے ان کی موجودگی میں نواسا اور نواسی محروم ہیں، ہاں اگر ان کی والدہ مرحوم کی وفات کے بعد فوت ہو تی تو نواسے اور نواسی کو اپنی ماں کا حصہ ملنا تھا لیکن وہ اپنے باپ کی زندگی میں فوت ہو گئی لہذا اسے یا اس کی اولاد کو مرحوم کی جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا، سوال سے معلوم ہو تاہے کہ مرحوم کی وفات کے بعد اس کی بیوی، بیٹا اور پانچ بیٹیاں زندہ ہیں۔ انہیں حسب، ذیل تفصیل سے حصہ دیا جائےگا۔ 1 خاوند اگر صاحب اولاد ہو تو اس کی جائیداد سے ایک بیوی یا متعدد بیویوں کو آٹھواں حصہ ملتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
Flag Counter