Maktaba Wahhabi

371 - 452
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خصی جانور کی قربانی درست ہے، اسے عیب شمار نہیں کیا جاتا۔ دراصل کسی جانور کو خصی کرنے کے مثبت اور منفی دو پہلو ہیں، مثبت پہلو یہ ہے کہ خصی جانور کا گوشت عمدہ اور بہتر ہوتا ہے جبکہ غیر خصی جانور کے گوشت میں ایک ناگوار سی بو پیدا ہو جاتی ہے جس کے تناول میں تکدر پیدا ہوتا ہے اور اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ جانور کو خصی کرنے سے اس کی فحولیت ( نر ہونا) ختم ہو جاتا ہے اور وہ افزائش نسل کے قابل نہیں رہتا ۔ قربانی کے متعلق مثبت پہلو یہ ہے کہ جانور کو خصی کرنے سے اس کے گوشت میں عمدگی پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’ قربانی کے جانور کا خصی ہونا کوئی عیب نہیں بلکہ خصی ہونے سے اس کے گوشت کی عمدگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‘‘[1] امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اس امر کی صراحت کی ہے کہ جانور کو خصی کرنے سے اس کا گوشت عمدہ ہو جاتا ہے اور قربانی کے لئے یہ کوئی عیب نہیں ہے۔ [2] قربانی کے ذریعے چونکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے، اس لئے قربانی کا جانور واقعی بے عیب اور تندرست ہونا چاہیے۔ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایک ایسے عیوب کی نشاندہی فرمائی ہے جو قربانی کےلئے رکاوٹ کا باعث ہیں تاہم قربانی کے لئے جانور کا خصی ہونا کوئی عیب نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے جانور کو قربانی کے لئے قطعی طور پر منتخب نہ فرماتے ۔ چنانچہ احادیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو ایسے مینڈھوں کی قربانی دیتے جو خصی اور گوشت سے بھرپور ہوتے تھے۔ [3] اس بناء پر کچھ لوگوں کا ان دنوں پروپیگنڈا کرناکہ خصی جانور کی قربانی ناجائز ہے بد دیانتی پر مبنی ہے۔ اس وضاحت کے بعد ہم جانور کو خصی کرنے کی شرعی حیثیت بیان کرتے ہیں۔ جانور کو خصی کرنے کے متعلق علمائے متقدمین میں اختلاف ہے، ایک گروہ اس عمل کو مطلق طور پر حرام کہتا ہے خواہ وہ جانور حلال ہو یا حرام۔جبکہ کچھ اہل علم کا موقف ہے کہ خصی کرنے کی حرمت صرف حرام جانوروں سے متعلق ہے، ان کے نزدیک حلال جانور کو خصی کرنا جائز ہے۔ جو حضرات مطلق طور پر حدیث کے قائل ہیں ان کے دلائل حسب ذیل ہیں: ٭ اولاد آدم کو گمراہ کرنے کے متعلق ابلیس لعین کا ایک طریقہ واردات بایں الفاظ بیان ہوا ہے: ’’ میں انہیں حکم دوں گا کہ وہ میرے کہنے پر ضرور اللہ کی تخلیق میں بگاڑ پیدا کریں گے۔ ‘‘[4] حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس سے مراد جانوروں کا خصی کرنا ہے۔ [5] ٭ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں اور دیگر جانوروں کو خصی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [6] ٭ حضرت نافع ، جناب ابن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ خصی کرنے کے عمل کو مکروہ خیال کرتے تھے۔[7] ٭حضرت عکرمہ رحمہ اللہ تابعی جانوروں کے خصی کرنے کو مکروہ خیال کرتے تھے۔ [8]
Flag Counter