Maktaba Wahhabi

384 - 452
میرے رب نے داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے اور تمہیں یہ شکل و صورت بنانے کا کس نے حکم دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں بھی ہمارے رب ( بادشاہ) نے اس بات کا حکم دیا ہے۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں داڑھی کا بہت اونچا مقام ہے۔ اب جو لوگ اس داڑھی کو اپنی حالت میں رکھنے کی بجائے اس کے ساتھ غیر فطرتی سلوک کرتے ہیں بلکہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں جیسا کہ سوال میں ذکر ہوا ہے، ان کے متعلق قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ قرآنی آیات یا اسلامی شعائر کے ساتھ مذاق کرنا سنگین جرم ہے۔ چنانچہ مکہ میں رہتے ہوئےمشرکین مکہ اسلامی شعائر کا مذاق اڑاتے تھے تو مسلمانوں کو ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے منع فرما دیا گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ اورجب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں نکتہ چینیاں کرتے ہیں تو ان کے پاس بیٹھنے سے اعراض کریں تا آنکہ وہ کسی دوسری بات میں مصروف ہو جائیں۔ ‘‘[1] اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو انسان اسلامی شعائر کے ساتھ مذاق کرتا ہے وہ اس قدر بدبخت ہے کہ اس کے پاس بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے، مسلمان جب ہجرت کر کے مدینہ گئے تووہاں منافقین اور یہود و نصاریٰ بھی کفار مکہ کا کردار ادا کرنے لگے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے دوبارہ مسلمانوں کو خبر دار کرتے ہوئے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں یہ حکم پہلے نازل کر چکا ہے کہ تم جب سنو، آیات الٰہی کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کے ساتھ مذاق اڑایا جا رہا ہے تو وہاں ان کے ساتھ مت بیٹھو ، تاآنکہ یہ لوگ اپنا موضوع بدل لیں۔ بصورت دیگر تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو جاؤ گے، بلا شبہ اللہ تعالیٰ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔‘‘[2] یعنی جو لوگ ایسی مجالس میں بیٹھیں جہاں علانیہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا مذاق اڑایا جا رہا ہو اور شعائر اسلام کی توہین کی جارہی ہو یا سرے سے ان کا انکار کیا جا رہا ہو اور وہ ایسی باتیں سن کر ٹھنڈے دل سے سن کروہیں بیٹھے رہیں اور ان کی غیرت ایمانی کو ذرا بھی جنبش نہ آئے تو ان میں اور کافروں میں کوئی فرق نہیں رہتا، ایسی صورت میں ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ناراضگی کا اظہار کر دے اور ان کی زبانیں بند کرنے کے لئے کوئی حیلہ گری کرے اور اگر دلائل سے انہیں حق بات کا قائل کر سکتا ہو تو ضرور کرے اور اگر یہ دونوں کام نہیں کر سکتا تو کم ازکم خود وہاں سے اٹھ کر چلا جائے۔ واضح رہے کہ سورۃ انعام مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی اور مکہ میں شعائر اسلام اور آیات الٰہی کا تمسخر کرنے والے کفار مکہ تھے اور سورۃ النساء مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی۔ یہاں اللہ کی آیات اور شعائر اسلام کا مذاق کرنے والے یہود مدینہ اور منافقین تھے گویا آیات الٰہی اور شعائر اسلام کا مذاق اڑانا ہر طرح کے کافروں کا پرانا دستور ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر منافقین کا ذکر کرتےہوئے فرمایا: ’’ اگر آپ ان سے پوچھیں تو کہہ دیں گے، ہم تو صرف مذاق اور دل لگی کر رہے تھے ، آپ ان سے کہہ دیں کہ کیا تمہاری ہنسی اور دل لگی ، اللہ اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہی ہوتی ہے، بہانے نہ بناؤ تم واقعی ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔ ‘‘[3] یہ آیات غزوہ تبوک کے موقع پر نازل ہوئیں ، اس وقت مسلمانوں کے ساتھ منافقین کی ایک جماعت بھی شامل تھی ، اسلام اور اہل اسلام سے مذاق کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا، جب ان سے باز پرس کی گئی تو کہنے لگے کہ ہم تو یہ باتیں اس طویل سفر میں محض دل
Flag Counter