Maktaba Wahhabi

417 - 452
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کئے اور اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ان کے جوابات دیئے۔ عہد رسالت میں بعض اوقات ایسے سوالات بھی سامنے آئے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج کے خلاف تھے اور ان میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہیں تھا، اللہ تعالیٰ نے محدود پیمانے پر اس سلسلہ میں کچھ پابندی عائد کر دی۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اے ایمان والو! ایسی باتوں کے متعلق سوال نہ کیا کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں۔ ‘‘[1] اس کے بعد لوگوں پر پابندی عائد کر دی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے سوالات نہ کئے جائیں جن میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو کیونکہ خواہ مخواہ سوال پوچھنے سے انسان کو نقصان ہی ہوتا ہے یا اس پر کوئی پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے فائدہ گفتگو کرنے ، زیادہ سوالات پوچھنے ، مال و دولت کو ضائع کرنے، ماؤں کو ستانے ، لڑکیوں کو زندہ در گور کرنے اور دوسروں کا حق دبانے سے منع فرمایا ہے۔ [2] ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا جیسا کہ کچھ لوگ قرآنی آیات سے استدلال کر کے باطل چیزوں کے امکان پر بحث و سوال کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ اگر سب کچھ جانتا ہے تو کیا جادو بھی جانتا ہے، اور اگر اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے تو کیا وہ جھوٹ بولنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ ہر شخص کی شاہ رگ سے بھی قریب تر ہے تو وہ عرش پر کیسے مستوی ہو سکتاہے؟ العیاذباللہ اب ہم فضول اور بے فائدہ سوالات کی کچھ اقسام بیان کرتے ہیں تاکہ آپ حضرات بھی اس قسم کے سوالات پوچھنے سے اجتناب کریں۔ ٭ ایسے سوالات جن میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سالم رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کی تعیین کے لئے سوال کیا تھا۔ [3] ٭ ضرورت پوری ہونے کے بعد بلاوجہ مزید سوالات کا سلسلہ جاری رکھنا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کی فرضیت کو بیان فرمایا تو ایک آدمی نے سوال کر دیا کہ ہر سال حج کرنا فرض ہے۔[4] ٭ ایسے معاملات کے متعلق سوالات کرنا ، جن کے متعلق شریعت کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا بلکہ شارع علیہ السلام کا سکوت ہی اس کے جواز کے لئے کافی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس معاملہ کو میں نے چھوڑ دیا ہے تم بھی اسے چھوڑ دو، تم سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک ہوئے کہ انہوں نےبلاوجہ اپنے انبیاء علیہم السلام سے اختلاف کر کے سوالات کی بھر مار کر دی تھی۔[5] ٭ مشکل ترین اور حساس معاملات کے متعلق سوالات کرنا تا کہ جواب دینے والا کسی الجھن اور پیچیدگی کا شکار ہو جائے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمہ جات اور پہیلیوں ( اغلوطات) کی صورت میں سوالات کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [6] ٭ تعبدی احکام کی غرض و غایت اور اس کی علت سے متعلق سوال کرنا ۔ جیساکہ حضرت معاذہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا تھا
Flag Counter