Maktaba Wahhabi

178 - 452
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفلی نماز ادا کرنے کے متعلق حکم دیا ہے کہ اسے اپنے گھروں میں پڑھا کرو اور اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔‘‘[1] اس حدیث کا واضح مطلب یہ ہے کہ قبرستان نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے، جب قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جا سکتی تو وہاں مسجد بنانا کیونکر جائز ہو سکتی ہے، اس امر کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ زمین تمام کی تمام مسجد ہے، سوائے حمام اور مقبرہ کے۔ ‘‘[2] اس حدیث کا مطلب ہے کہ قبرستان میں مسجد نہیں بنائی جا سکتی ، قبرستان میں یا قبر کے آس پاس نماز پڑھنے کا معاملہ بہت حساس ہے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بزرگ یا نبی کی قبر کے پاس مسجد بنانے سے منع کیا ہے مبادا لوگ یہ خیال کریں کہ مدفون ہستی کی برکات اور اس کے فیوض کی بنا پر یہاں نماز پڑھنا افضل ہے اور یہ بات شرک کے لئے ایک چور دروازہ کھولتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ ‘‘[3] علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قبروں کو مسجدیں بنانے میں تین امور شامل ہیں: 1 قبروں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا 2 قبروں پر سجدے کرنا 3 قبروں پر مساجد تعمیر کرنا۔[4] اس بنا پر ہمارے رجحان کے مطابق قبرستان میں مسجد تعمیر کرنا شرعاً جائز نہیں ہے اگر کوئی قبرستان میں مسجد بناتا ہے تو اس کا حکم قبر جیسا ہی ہے ۔ چنانچہ حضرت قتادۃ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ قبرستان کے پاس سے گزرے تو لوگ اس میں مسجد تعمیر کر رہے تھے، انہیں دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ قبروں کے درمیان مسجد بنانا ناپسند کیا جاتا تھا۔‘‘[5] ہاں اگر قبرستان پرانا ہو چکا ہو اور وہاں دفن کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہو اور وہ قبرستان بھی غیر مسلم لوگوں کا ہو تو وہاں قبروں کو سطح کے برابر کر کے وہاں مسجد تعمیر کی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو مدینہ طیبہ کے ایک پرانے قبرستان کو ہموار کر کے وہاں مسجد نبوی تعمیر کی تھی۔ [6] امام بخاری نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’ کیا مشرکین کی قبروں کو ہموار کر کے وہاں مسجد بنائی جا سکتی ہے۔ ‘‘[7] لیکن مسلمانوں کے قبرستان میں یہ کام نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان کی قبریں اعزاز و تکریم کی حقدار ہیں ، انہیں اکھاڑنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔ بعض لوگ مسجد نبوی میں موجود قبور ثلاثہ سے دلیل لیتے ہیں کہ قبرستان میں مسجد بنائی جا سکتی ہے لیکن یہ دلیل اس لئے بے کار ہے کہ قبور ثلاثہ سے پہلے وہاں مسجد موجود نہ تھی اور یہ تینوں قبریں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں ہیں جو مسجد نبوی سے باہر تھا، ان تینوں قبروں کو مسجد میں شامل کرنے کا حکم نہ اللہ تعالیٰ نے دیا نہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے
Flag Counter