Maktaba Wahhabi

102 - 668
سرزمینِ شام میں واقع ہیں ، مکہ اور اس کے درمیان سیکڑوں میلوں کا فاصلہ ہے۔ رہی یہ تحقیق کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کو جو نور نظر آیا، آیا وہ خواب میں تھا یا بیداری میں ؟ سو اس کے متعلق بدایہ و نہایہ ابن کثیر جلد دوم، ’’باب صفۃ مولدہٖ‘‘ میں بروایت ابنِ اسحاق ہے کہ یہ نور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کو خواب میں دکھائی دیا، لیکن یہ روایت منقطع ہے۔ پھر اسی باب میں بروایت ابن سعد حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ آمنہ نے فرمایا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدایش کا وقت قریب ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بدن سے جدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک نور نکلا، جس کی وجہ سے مشرق سے لے کر مغرب تک روشنی پھیل گئی اور بصریٰ شہر، جو شام کی زمین میں ہے، اس کے محل نظر آنے لگے اور اس شہر کے اونٹوں کی گردنیں بھی نمودار ہونے لگیں ۔ اگرچہ یہ روایت بوجہ واقدی راوی کے (جس میں کلام کیا گیا ہے) صحیح نہیں ۔ لیکن بوجہ متصل اور اہلِ سیر کے نزدیک مشہور ہونے کے بہ نسبت منقطع کچھ جان رکھتی ہے۔ پس نتیجہ یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کو دو دفعہ نور نظر آیا، پہلی دفعہ خواب میں ، دوسری دفعہ بیداری میں ۔ فافہم علاوہ ازیں انبیا علیہم السلام کے جسم مبارک میں ایک ایسا نور مخفی ہوتا ہے جو کبھی کبھی ان کے جسم سے نکل کر ان کے چہرے پر جلوہ گر اور شعلہ زن ہوتا ہے اور حاضرین اس کو آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں ۔ کمترین کی تحقیق کے بموجب یہ نبوت کا نور ان کے وجود میں نزولِ وحی سے پیدا ہوتا ہے۔ جب خدا کی وحی ان پر نازل ہوتی ہے تو ان کا دل اس سے متاثر ہو کر نور سے بھر جاتا ہے اور یہ نور مخلوق ہے۔ ترمذی اور دارمی نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے متصل اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے: ’’ایک دفعہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چاندنی رات میں دیکھا، ایک دفعہ تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتا، جو سرخ لباس زیب تن فرمائے ہوئے تھے اور ایک دفعہ چاند کی طرف۔ پس پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم میرے نزدیک چاند سے زیادہ خوبصورت تھے۔‘‘ (مشکاۃ، باب اسماء النبي) [1] اگر صحابی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کی جلوہ گری و نورانیت چاند کی طرح دکھائی نہ دیتی تو وہ اس کو چاند کے ساتھ موازنہ نہ کرتا اور اسے زیادہ خوبصورت نہ بتاتا۔
Flag Counter