Maktaba Wahhabi

170 - 668
کو بعد میں ملی۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم باعتبار زمانے کے اس وحی کے متبع ہوئے، جو سابقہ انبیا علیہم السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مل چکی تھی۔ اس طرح تو ہر نبی اپنے سے پہلے نبی کا تابع ہو سکتا ہے کہ اس کی وحی اس کے مطابق ہوتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی موسوی شریعت کے تابع تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب کے بعد آئے، تمام انبیا علیہم السلام کی وحی و علم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم باعتبار تمام انبیا علیہم السلام کے علم کے مخزن ہونے کے سب سے افضل و اشرف ٹھہرے۔ رہا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت کا اتباع تو اس کا جواب یہ ہے کہ کفارِ مکہ باوجود مشرک ہونے کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مانتے تھے۔ خدا نے ان کی تردید کی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تو ایک طرف رہنے والے اور موحد تھے۔ وہ مشرک تو نہ تھے۔ سو تمھارا مذہب ان کے خلاف ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم مذہبًا ان کے موافق ہیں ۔ اسی طرح یہود و نصاریٰ کا دعویٰ تھا: ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام یہودی تھے اور نہ عیسائی، حنیف مسلمان تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘ [آل عمران: ۶۷] پس حضرت ابراہیم علیہ السلام اور سابقہ نبیوں کو جو توحید دی گئی، وہی توحید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بعد میں عطا کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمانے کے اعتبارسے ان کا مقتدی اور متبع کہا گیا ہے۔ فافھم چھٹا شبہہ: مندرجہ ذیل حدیث کی بنا پر یہ بھی شبہہ ہو سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’ایک آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کرکہنے لگا: ’’یا خیر البریّہ‘‘ یعنی اے سب سے بہتر! فخرِعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ سب خلقت سے بہتر ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔‘‘ (مسلم، مشکاۃ، باب المفاخرۃ) [1] ازالہ: اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے’’ خیر البریّہ‘‘ ہونے سے انکار کیا، بلکہ سمجھانا مقصود تھا کہ اس لقب سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی ملقب کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ آدم علیہ السلام کی ساری اولاد کے سردار تھے، جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی شامل ہیں ۔ علاوہ ازیں حدیث بحوالہ مذکور گزر
Flag Counter