Maktaba Wahhabi

51 - 668
فضائلِ قدیمہ تیسری آیت: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل میں بطور دعویٰ کے قرآن کی دو آیات تو گزر چکی ہیں ، اب تیسری آیت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضلیت کو ظاہر کرتا ہے اور اس کی تشریح اور مضمون بھی چونکہ آیت کے قریب قریب ہے، لہٰذا اس کو آیت ہی کا مرتبہ دینا چاہیے۔ سورت آل عمران میں ہے: ﴿وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ﴾ ’’ یعنی نہیں ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم مگر رسول‘‘ سورۃ الاحزاب میں ہے: ﴿مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ﴾ ’’یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ۔‘‘ سورت محمد میں ہے: ﴿وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ﴾ ’’یعنی مومن وہ لوگ ہیں جو اس چیز پر، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی ہے، ایمان لائے ہوں ۔‘‘ سورۃ الفتح میں ہے: ﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ﴾ ’’یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘ سورت صف میں آپ کا نام احمد بیان کیا گیا ہے: ﴿اِسْمُہٗ اَحْمَدُ﴾ ان آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد اور احمد بیان کیا گیا ہے۔ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے: (( إِنَّ لِیْ أَسْمَائٌ)) ’’اسمائ‘‘ ’’إن‘‘ کا اسم ہے اور ’’لي‘‘ اس کی خبر، جو اسم پر مقدم ہو کر حصر کا فائدہ دیتی ہے۔ ’’لِي‘‘ میں لام اختصاص کا ہے۔ پس معنی یہ ہوئے کہ میرے لیے ہی یہ نام خاص ہیں ، کسی دوسرے کو ان میں شرکت نہیں ۔ میں محمد ہوں اور احمد ہوں اور ماحی ہوں ، جس کے سبب اللہ کفر کو مٹا دیتا ہے اور حاشر ہوں کہ سب لوگ میرے قدموں پر اکٹھے کیے جائیں گے اور عاقب ہوں ۔ عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (بخاری و مسلم) [1] حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مقفی آیا ہے۔ اس کے معنی بھی آخری نبی کے ہیں اور توبہ کا نبی اور رحمت کا نبی یہ
Flag Counter