Maktaba Wahhabi

77 - 668
ہی رہا۔ اگر شام سے پہلے موت آ گئی تو وہ نجاست کی آلودگی میں مرا۔ اسی طرح حیض والی عورت سے صحبت کرنے والا سات دن ہی ناپاک رہے گا تو وہ سات دن کم ازکم سات برس میں پورے ہوں گے، پھر مصیبت یہ کہ ایک ایک دن چھے چھے ماہ کا ہوگا۔ پس اس جگہ جہاں چھے ماہ کا دن ہو، ایسے مسائل پر عمل کرنا نہایت مشکل بلکہ محال ہے۔ تیسرا اعتراض: مولوی صاحب نے نہ بائبل کو پڑھا اور نہ عیسائیوں کے مذہب کو سمجھا۔اسی تورات کی کتاب میں جہاں سے انھوں نے الزام قائم کیا ہے، اسی کے اخیر میں لکھا ہے کہ جو موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں موجود تھے۔ یہ عام لوگوں کے لیے ہرگز نہیں ، خصوصاًعیسائی تو ان سے دست برادر ہیں ، ان کو تو مسیح علیہ السلام کے کفارے کے بعد شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ، کیونکہ انجیل میں لکھا ہے کہ یہ بات ظاہر ہے کہ شریعت کے وسیلے سے کوئی شخص خدا کے نزدیک راست باز نہیں ٹھہرتا، کیونکہ لکھا ہے کہ راست باز ایمان سے جیتا رہے گا اور شریعت کو ایمان سے کچھ واسطہ نہیں ہے۔ مسیح علیہ السلام جو ہمارے لیے لعنتی بنا، اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا۔ (گلتیوں ، باب ۳، درس ۱۱ تا ۱۴) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شریعت پر عمل کرنے کے باوجود بھی آدمی بے ایمان، بلکہ لعنتی ہی رہتا ہے۔ مسیح علیہ السلام کا خون مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑانے کا یہ مطلب ہے کہ اس نے شریعت سے آزاد کرانے کے لیے اپنے آپ کو پھانسی پر لٹکایا، عیسائیوں کے گناہوں کے عوض اپنا خون دے دیا۔ پس جس صورت میں عیسائیوں کو شریعت سے مستغنی کیا گیا ہے، ان پر شریعت کا الزام دینا غلط ہے۔ جواب: مولوی صاحب نے بائبل کو پڑھا اور خوب سمجھا۔ اگر احبار شریعت کے احکام بقول آپ کے فلسطین کے یہودیوں کے لیے ہی مخصوص ہیں تو آپ لوگ ان میں سے بعض احکام پر کیوں عمل کرتے ہیں ؟ پادری صاحب غور سے سنیے! انجیل متی کو شروع سے لے کر مکاشفات تک پڑھ جائیں ، اس میں حلال و حرام چیز کا قطعاً ذکر نہیں پایا جاتا۔ خصوصاًمحرمات کے نکاح کا تو اس میں نام و نشان نہیں ، مثلاً: ماں ، بہن، بیٹی اور خالہ وغیرہ سے نکاح کرنا حرام ہے، انجیل اس سے ساکت ہے۔ ان مسائل کے
Flag Counter