Maktaba Wahhabi

481 - 668
لوگوں کا خوف کیا معنی رکھتا ہے؟ کتاب اللہ میں ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس کا حکم اس کے برابر ہے اور لفظ کتاب اللہ کبھی غیر قرآن پر بھی بولا جاتا ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (( الولاء لمن أعتق)) کو کتاب اللہ فرمایا۔ (مشکاۃ، کتاب البیوع) [1]پس جس طرح یہ الفاظ باوجود کتاب اللہ نہ ہونے کے ان پر کتاب کا اطلاق ہوا، اسی طرح آیتِ رجم کو بھی سمجھ لینا چاہیے۔ اور یہی آیتِ رجم اور وہ دس رضعات ایک مسودہ میں لکھے ہوئے تھے، جن کی نسبت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ان کو بکری کھا گئی تھی۔ (ابن ماجہ، کتاب النکاح) [2] خدا کا شکر ہے کہ بکری نے غیر قرآن کو کھایا نہ کہ قرآن کو۔ پھر اگر بالفرض بکری کسی آیت قرآنی کو بھی کھا جاتی تو پھر بھی آیت قرآنی کا نابود ہونا محال تھا، کیونکہ زمانۂ نزول سے لے کر اس واقع تک سیکڑوں صحابہ رضی اللہ عنہم نے سینے میں قرآن محفوظ رکھا تھا۔ تیسرا اعتراض: سیدنا ابو موسیٰ اشعری کا دو سورتوں کو بھول جانا۔ ایک ان میں سے سورہ توبہ کے برابر تھی اور دوسری مسبحات کے برابر۔[3] (مشکاۃ، کتاب الزکاۃ) جواب: اگر کوئی عبارت دوسری عبارت سے طوالت میں تشبیہ رکھے تو وہ اس کی جزو نہیں بن سکتی۔ اگر یہ سورتیں جزوِ قرآن ہوتیں تو ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا ان کو بھول جانا نا ممکن ہے۔ پھر اگر وہ بھول گئے تھے تو دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی یاد نہ رہیں ۔ پس نتیجہ معلوم کہ یہ سورتیں قرآن کے علاوہ تھیں ۔ علاوہ ازیں سورت کا لفظ کبھی غیر قرآن پر بھی بولا جاتا ہے، جیسا کہ وہ تورات اور انجیل جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تھیں ، سورتوں پر مشتمل تھیں ، حالانکہ وہ قرآن نہیں ۔ (مشکاۃ باب فضائل القرآن) [4]
Flag Counter