Maktaba Wahhabi

544 - 668
میں کم زیادہ کرنا کوئی امرِ محال نہیں ، بلکہ ممکن ہے، یعنی اگر کوئی شخص اس میں تغیر و تبدل کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، پھر اگر تورات کی عبارت میں قرآن مجید کی طرح رد وبدل نا ممکن ہوتا، جو انسانی طاقت سے باہر ہے، تو حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو اس برے فعل سے کبھی منع نہ کرتے۔ پس یہودی اپنی خود غرضی کی بنا پر ہر زمانے میں تورات کی ہر وہ جگہ بدل ڈالتے جو ان کے خلاف ہوتی، یہاں تک کہ یرمیاہ نبی اپنے زمانے کے یہودیوں کی شکایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’قَد حَرَّفْتُمْ کَلَامَ الإِلٰہِ الْحَيِّ رَبِّ الْجُنُوْدِ إلٰھِنَا‘‘ (یرمیاہ باب ۲۳ آیت ۳۷) آیت ’’تم نے زندہ خدا رب الافواج ہمارے خدا کے کلام کو بگاڑ ڈالا ہے۔‘‘ پھر اس کتاب کے باب (۸) اور آیت (۸) میں صاف لکھا ہے: ’’لیکن دیکھ! لکھنے والوں کی باطل قلم نے بطالت پیدا کی ہے۔‘‘ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یرمیاہ نبی کے وقت کے یہودی حق کو مٹا کر باطل اور من مانی باتیں کتاب میں لکھ دیا کرتے تھے، جب ہی تو خود خداوند بھی شکایت کر رہا ہے۔ حاصل کلام یہ کہ جب تک خدا کے کلام کے اصلی الفاظ کو بدلا نہ جائے اس وقت تک ترکِ عمل اور غلط تاویلات سے کتاب بگڑ نہیں سکتی، چونکہ یہاں کلام کو بگاڑنے اور باطل لکھنے کا شکوہ ہے، اس لیے صاف ظاہر ہو گیا کہ یقینا یہودیوں نے کلام کو بگاڑ دیا تھا۔ تحریف سوم:جھوٹی پیش گوئی: پھر اس کے بعد تورات کے الفاظ کی حفاظت کے متعلق انجیل میں بھی ایک پیش گوئی موجود ہے، جو حضرت مسیح کی طرف منسوب کی گئی ہے اور اس پیش گوئی کا یہاں ذکر کر دینا بے فائدہ نہ ہو گا، بلکہ مناسب معلوم ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے دوست عیسائی حضرات بھی اس پیش گوئی کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگا دیتے ہیں ۔ ہم یہ دیکھنے میں حق بجانب ہیں کہ اس پیش گوئی میں کہاں تک صداقت ہے، چنانچہ متی کی انجیل (باب ۵ آیت ۱۸) میں حضرت مسیح فرماتے ہیں : ’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ تورات سے ہر گز نہ ٹلے گا۔‘‘
Flag Counter