Maktaba Wahhabi

76 - 668
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم جو دن ایک سال کی مقدار کے برابر ہوگا، کیا اس دن میں ایک ہی دن کی پانچ نمازیں کفایت کر جائیں گی؟ فرمایا نہیں !بلکہ تم نمازوں کو اندازے سے ادا کرنا۔‘‘ (مسلم، مشکاۃ، باب ذکر الدجال) [1] تفصیل اس کی یہ ہے کہ جس قدر فجر اور ظہر کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے، فجر کے بعد اتنا اندازہ لگا کر ظہر ادا کر لینا، اسی طرح ظہر سے لے کر عصر تک، عصر سے لے کر شام تک وغیرہ۔ پس نماز اور روزہ دونوں فرض اور وقتی عبادتیں ہونے کے لحاظ سے برابر ہیں ۔ پس جس طرح سال بھر کے دن میں نمازیں ادا کی جا سکتی ہیں ۔ اسی طرح چھے ماہ کے دن میں مہینے کا اندازہ لگا کر روزے ادا ہو سکتے ہیں ۔ اس جواب سے ماہِ رمضان کا عالمگیر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ پادری صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ بائبل کو جسے وہ الہامی مانتے ہیں ، اس کے مصنف کو قطب شمالی اور جنوبی دونوں کا قطعاً علم نہ تھا۔ اگر اس کو علم ہوتا تو مندرجہ ذیل احکام مقرر کرتے وقت ان کا بھی کچھ نہ کچھ انتظام کرتا۔ چنانچہ جریان کے مریض کے بارے میں وہ حکم دیتا ہے کہ جس بستر پر جریان کا مریض سو لے، وہ بسترناپاک ہے۔ جو کوئی اس بستر کو چھوئے گا وہ اپنے کپڑے دھوئے اور پانی سے غسل کرے اور شام تک ناپاک رہے۔ (احبار، باب ۱۵، درس ۴ تا ۵) پھر اسی باب میں لکھا ہے کہ اگر جریان کا مریض کسی شخص پر، جو پاک ہے، تھوک دے تو وہ شخص اپنے کپڑے دھوئے اور پانی سے غسل کرے، شام تک ناپاک رہے۔ (باب مذکور، درس ۸) پھر حیض والی عورت کے متعلق لکھا ہے کہ اگر مرد اس کے ساتھ صحبت کرے اور اس کے حیض کا خون اسے لگ جائے تو وہ سات دن تک ناپاک رہے گا۔ (باب مذکور، درس ۲۴) علاوہ ازیں اس باب میں اور بھی ایسے احکام و مسائل ہیں ، لیکن بعدد تثلیث اسی پر اکتفا کرتے ہیں ۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ناپاک آدمی غسل کرنے کے باوجود بھی شام تک ناپاک اور نجس ہی رہتا ہے۔ ہم پادری صاحب سے دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ جس جگہ چھے ماہ کا دن ہوتا ہے، اگر وہاں آدمی ناپاک ہو کر غسل کرے تو پاک ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ اگر وہ یہ کہیں کہ ہو سکتا ہے تو شام کی قید فضول اور باطل ٹھہری اور اگر وہ یہ کہیں کہ شام تک وہ نجس ہی رہتا ہے تو اتنا دراز عرصہ وہ ناپاک
Flag Counter