Maktaba Wahhabi

52 - 668
نام بھی اس میں درج ہیں ۔ (مسلم، مشکوٰۃ، باب أسماء النبي) [1] سب سے پہلے ہم لفظ ’’محمد‘‘ کی تشریح کرتے ہیں ، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نام ذاتی ہے، لیکن یہ صفاتی سے منقول ہو کر ذاتی علم بن گیا ہے۔ جاننا چاہیے کہ محمد کامادہ و مصدر حمد ہے، جس سے یہ نکالا گیا ہے اور حمد کے معنی مفسرین کے نزدیک ثناے جمیل کے ہیں ، یعنی حمد اس تعریف کوکہتے ہیں جو محمود کی تعظیم کے ارادے سے اس کے کسی ایسے اچھے وصف پر کی جائے، جو اس کے اختیار میں ہو۔[2] (واضح البیان) بعض مفسرین نے حمد کے معنی شکر کے بھی کیے ہیں ۔ پس حمد، شکر اور ثناے جمیل یعنی اعلیٰ تعریف کا جامع ہے اور یہ ایسی تعریف ہے جو حقیقی طور پر محمود میں پائی جائے، جو اس سے کبھی الگ نہ ہو سکے۔ اسی لیے قرآن میں خدا تعالیٰ نے بجائے ثنا کے اور مدح کے اسی کو اختیار کیا ہے۔ فرمایا: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ﴾ یعنی ہر طرح کی اعلیٰ تعریف خدا کے لیے ہے اور اس کی ضد ذم و مذمت ہے، جس کے معنی برائی کے ہیں ۔ اور یہ قاعدہ ہے کہ مشتق منہ کے معنی مشتق میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ پس لفظ محمد حمد سے نکالا گیا تو لامحالہ اس میں بھی حمد کے معنی ہونے چاہییں ۔ حمد مصدر ہے، جس کے معنی ہیں اعلیٰ و نیک تعریف کرنا اور یہ ثلاثی مجرد ہے۔ پھر اس سے ثلاثی مزید باب تفعیل کے وزن پر تحمید بنایا گیا، جس کے معنی ہیں کسی شخص سے دوسرے کی تعریف کرانا، اس سے لفظ محمد نکالا گیا، جو اسم مفعول کا صیغہ ہے، پس اس کے معنی یہ ہوئے نہایت اعلیٰ اور احسن تعریف کرایا ہوا۔ لغتِ عرب میں محمد اس شخص کو کہتے ہیں جس میں خصائل و شمائلِ عظیمہ، یعنی نہایت اعلیٰ اوصاف و احسن عادتیں پائی جائیں ۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے رکھا گیا کہ خدا تعالیٰ زمین اور آسمان کے باشندوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کراتا ہے۔ مشکاۃ کا باب المعراج کھول کر ان احادیث کا مطالعہ کرو، جن میں صاف طور پر درج ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم جبریل علیہ السلام کے ہمراہ آسمان پر چڑھائے گئے تو یکے بعد دیگرے سات آسمانوں کی سیر کی۔ جس آسمان کا دروازہ آپ کے لیے کھولا جاتا تو فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے ہوئے خوشی
Flag Counter