Maktaba Wahhabi

112 - 668
عادتوں کی قسم نہیں ہوتی، بلکہ اس وقت ایسی عادتیں اخلاقِ ذمیمہ اور عاداتِ رذیلہ و قبیحہ میں شمار ہوں گی۔ تاہم آپ میں پیدایشی طور پر اس قدر نرمی اور حلم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس امر کا، جو آپ کے متعلق ہو، کسی سے انتقام (بدلہ) نہیں لیا، مگر خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کا ارتکاب کرنے والوں سے ان کی گوشمالی کرتے ہوئے خدا کے لیے بدلہ ضرور لیتے۔ (بخاری و مسلم) [1] ١۔ ’’عَنْ أَنَسٍ قَالَ: خَدَمْتُ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَشْرَۃَ سِنِیْنَ فَمَا قَالَ لِيْ أُفٍّ وَلَا لِمَ صَنَعْتَ وَلَا أَلَّا صَنَعْتَ‘‘ (بخاری و مسلم) [2] ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کبھی اف تک نہ کہا اور کبھی یہ بھی نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں کیااور نہ یہ فرمایا کہ تونے یہ کام کیوں نہیں کیا۔‘‘ ۲۔ محاسن و اخلاق میں انبیا علیہم السلام میں سے کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مثل نہیں ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا)) (مسلم) [3] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے بہت اچھے اور برتر اخلاق کے مالک تھے۔‘‘ ۳۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس باحیا کنواری لڑکی سے، جو اپنے پردے میں محفوظ رہتی ہے، بھی زیادہ صاحبِ حیا تھے۔‘‘ [4] ۴۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیہودہ گو اور لعنت کرنے والے اور گالیاں دینے والے ہرگز نہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زجر و ملامت کے وقت غلطی کرنے والے کو صرف اتنا ہی فرما دیتے: اس کی پیشانی خاک آلودہ ہو، اسے کیا ہو گیا؟‘‘ (بخاري، مشکاۃ في أخلاقہٖ و شمائلہٖ)[5]
Flag Counter