Maktaba Wahhabi

114 - 668
فضلِ الٰہی ہوا اور وہ نصرت جو تمھارے شامل حال ہوئی تمھارے احسان سے برتر و اعلیٰ ہے۔ سوم یہ کہ اس بیعتِ فائقہ کے ذریعے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جو اللہ کی طرف سے احسان ہوئے، ان کا ذکر مندرجہ ذیل آیت میں کیا گیا ہے: ﴿لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ وَاَثَابَھُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا*وَّمَغَانِمَ کَثِیْرَۃً یَّاْخُذُوْنَھَا وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا﴾ [الفتح : ۱۸۔ ۱۹] یعنی بے شک اللہ تعالیٰ ان مومنوں سے راضی ہو گیا جو درخت کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرتے تھے اور جو کچھ ان کے دلوں میں تھا وہ اللہ نے جان لیا۔ یعنی یہ لوگ صدقِ دل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے، وفاداری میں ثابت رہیں گے، غدار نہ نکلیں گے۔ پس اس کے سبب اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر تسلی، یعنی اطمینان اتارا اور ان کو فتح قریب کا ثواب دیا اور وہ حدیبیہ کی صلح جو اسی جگہ ان کے دشمنوں سے ہوئی تھی اور اس کے بعد قریب ہی خیبر و مکہ کی فتح حاصل ہوئی۔ یہ بیعتِ رضوان حدیبیہ کی زمین میں ہجرت کے چھٹے سال کیکر کے درخت کے نیچے کی گئی۔ (تفسیر ابن کثیر تحت آیت مذکورہ، جلد ۴ و تاریخ ابن کثیر غزوہ حدیبیہ جلد ۴) اس بیعت میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما بھی شامل تھے۔ صبح کے وقت انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو بھی کی تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھے، بلکہ صلح نامہ انھوں نے ہی لکھنا شروع کیا۔ (مشکاۃ، باب الصلح و کتاب الجہاد) [1] حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: ’’بیعتِ رضوان کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اہلِ مکہ کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد بنا کر بھیجا اور لوگوں نے بیعت کر لی۔ حضرت نے ارشاد فرمایا: اے اللہ! تحقیق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کے رسول کی حاجت، یعنی دین کی مدد کے لیے مکے میں چلے گئے۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں میں سے ایک کو دوسرے پر مارا، یعنی عثمان رضی اللہ عنہ کی
Flag Counter