Maktaba Wahhabi

164 - 668
جھوٹا بہتان لگایا ہوا ہو، اس کی بریّت کرنے کے لیے قرآن مجید نے ﴿وجیھًا﴾ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ کی طرف ناشائستہ اتہام لگا کر ان کی پیدایش کو ناجائز قرار دیتے ہیں ۔ قرآن نے ان کو ﴿وجیھًا﴾کہہ کر اس بدترین اتہام سے پاک و صاف ثابت کیا ہے۔ اسی طرح بنی اسرائیل نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وہ اتہام منسوب کیا جو ان کی ذات کے متعلق تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام صاحبِ حیا اور باپردہ آدمی تھے کہ ان کے پردے کی و جہ سے ان کے جسم کی کوئی چیز نظر نہ آ سکتی تھی۔ بنی اسرائیل نے ان کو اتہام لگا کر ایذا دی۔ کہنے لگے کہ یہ اتنا پردہ اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے جسم میں کوئی عیب یا برص ہے یا کوئی اور بیماری ہو گی۔ جو کچھ بھی ان کا اتہام تھا، خدا نے اس سے ان کو بری کرنے کا ارادہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دن نہانے کے لیے ایک جگہ اکیلے چلے گئے، اپنے کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیے، پھر غسل کیا۔ جب فارغ ہوئے تو پتھر کی طرف اپنے کپڑے لینے کے لیے آئے، پتھر مع کپڑوں کے وہاں سے چل دیا۔ پس موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا لیے ہوئے پتھر کو طلب کیا اور یہ کہنا شروع کیا: او پتھر! میرے کپڑے! او پتھر میرے کپڑے! حتیٰ کے آپ بنی اسرائیل کی ایک مجلس تک پہنچ گئے، انھوں نے ان کو برہنہ دیکھا۔ خدا کی قدرت سے وہ بہت خوبصورت اور بے عیب تھے۔ خدا نے ان کو اس عیب سے، جو ان کی طرف منسوب کیا جاتا تھا، پاک کر دیا اور پتھر ٹھہر گیا، آپ نے کپڑوں کو پکڑ کر پہن لیا۔‘‘ (بخاري و مسند أحمد، تفسیر ابن کثیر تحت آیت ﴿وَ کَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْھًا﴾)[1] چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک ایسے ناشائستہ بہتانات سے بالکل صاف و منزہ تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے قرآن مجید نے ﴿وجیھًا﴾ کالفظ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ کسی مخالف نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسا بہتان نہیں لگایا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل اور جسم سے تعلق رکھتا ہو۔
Flag Counter