Maktaba Wahhabi

212 - 668
اب ہم فضیخ کے معنی لغت کی کتاب منجد سے، جس کا مصنف عیسائی، اسلام کا مخالف ہے، نقل کرتے ہیں : ’’الفضیخ عصیر العنب شراب یتخذ من التمر ولبن مزج بہ ماء کثیر فصار فصاعاً رقیقا‘‘ یعنی فضیخ اس پانی کو کہتے ہیں جو انگور سے نچوڑ کر نکالا جائے اور کھجور کے نبیذ اور شربت کو بھی۔ دودھ میں زیادہ پانی ملایا جائے تو وہ پتلا ہو جائے، اس کو بھی فضیخ کہا جاتا ہے۔ ناظرین! فضیخ کے معنی کیسے پاکیزہ ہیں ۔ یہ ایسی پاک اور طیب پینے کی چیز کو کہا جاتا ہے جو خمر سے بالکل الگ اور علاحدہ ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چیزوں کو پیا بھی تو نہایت پاکیزہ شربت کا استعمال کیا۔ پنڈت جی نے تو قیامت ہی برپا کر دی ہے، ایسا اندھیر مچایا جسے کوئی مخالف بھی نہیں سن سکتا۔ قرآن میں شراب کو پلید اور شیطان کا عمل قرار دیا گیا ہے (سورۂ انعام)۔ کتبِ احادیث کے کتاب الاشربہ کو نکال کر دیکھو کہ ان میں آپ کو ایسی احادیث بکثرت ملیں گی جن کے معنی یہ ہیں : ہر وہ چیز جس کے پینے سے بے ہوشی اور نشہ طاری ہو، اس کا استعمال کرنا حرام ہے۔ حتی کہ خمر شراب سے مریض کی دعا کرنے کو بھی منع فرمایا۔ (مشکاۃ کتاب الطب) شراب خمر سے جس قدر اسلام کو نفرت ہے، کسی مذہب میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی۔ پنڈت جی نے پیغمبرِ اسلام پر جھوٹا بہتان لگاتے وقت اپنے گھر کی طرف خیال نہیں کیا کہ اس کو شراب سے کس قدر محبت ہے۔ یاد رہے کہ سوامی جی نے نکاح کی آٹھ قسمیں لکھی ہیں ، آٹھواں نکاح خفتہ یا سوئی ہوئی یا شراب پی ہوئی پاگل لڑکی سے بالجبر ہم بستر ہونا پیشاج بیاہ کہلاتا ہے اور پیشاج نہایت مکروہ ہے۔ (ستیارتھ پرکاش باب ۴ صفحہ ۱۸۱ نمبر ۴۰) اگرچہ سوامی جی نے اس کو نہایت مکروہ لکھا ہے، لیکن اتنا تو تسلیم کیا ہے کہ عقدِ نکاح ہو جاتا ہے۔ جو اس سے اولاد پیدا ہو گی وہ حلال اور وارث بھی کہلائے گی۔ یہ کس قدر حیا سوز اور خطرناک تعلیم ہے کہ کسی کی معصوم لڑکی کو جبراً چھین کر یا فریب سے شراب پلا کر نکاح کرنا تو بشہادتِ سوامی جی جائز ہوگا، گو مکروہ ہے، لیکن بیوی بنا کر اس مظلومہ لڑکی کو استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ پنڈت جی کو شراب کا قدر کرنا چاہیے، جس نے ظلم اور فریب سے کسی مظلومہ لڑکی کو کسی آریہ سماجی کی بیوی بنا دیا۔ تُف ایسی ظالمانہ تعلیم پر!! اور سنو! سوامی جی کی سوانح عمری کلاں جو بڑی تحقیق سے لکھی گئی ہے، تا ہم اس میں ان کی
Flag Counter