Maktaba Wahhabi

220 - 668
اقرار کرتا ہوا خدا کے سوا مع اپنی ذات سب کو گناہ گار کہہ رہا ہے۔ پس مسیح اگر نیک تھے تو انھوں نے کیوں جھوٹ بولا کہ میں نیک نہیں ہوں ۔ پس اگر بقول آپ کے انبیاے معصومین علیہم السلام کا اقرار جھوٹ پر محمول ہے تو حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی جھوٹ بولا۔ انجیل تمام مخلوق کو مع حضرت مسیح علیہ السلام کے بدکہہ رہی ہے۔ نیک ہونا صرف خدا ہی کا خاصا ہے۔ اس خاصے میں اس کا مسیح علیہ السلام بھی شریک نہیں ہے۔ اس سے خدا کی وحدانیت کا ثبوت ملا اور مسیح کی الوہیت، بلکہ تثلیث کا بطلان ثابت ہوا۔ پھر طرفہ یہ کہ مسیح علیہ السلام نے کبھی از روئے انجیل خدا سے نیک ہونے کی دعا بھی نہیں کی، شاید اس لیے نہ کرتے ہوں گے کہ ان کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی ہو گی، جیسا کہ سولی پر چڑھ کر اس نے چلا چلا کر خدا کو پکارا: ’’ایلي ایلي لما سبقتني‘‘ یعنی اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ (متی باب ۲۷ درس ۴۶) آخر کار عیسائیوں کے خدا نے بے قراری کے وقت اس کی نہ سنی اور جزع فزع کرتا ہوا عیسائیوں کا خدا مر گیا۔ اگر کوئی سوال کرے کہ احادیث میں مذکور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یا اس کے علاوہ دعامیں اکثر اوقات کیوں گناہ کا اعتراف کرتے تھے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ خدا کی عبادت ادا کرتے ہوئے امت کو دعا مانگنے کا طریق سکھایا کرتے تھے، جیسا کہ مشکاۃ باب الدعاء في التشہد میں درج ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے کوئی ایسی دعا سکھائیے، جسے میں نماز میں پڑھا کروں ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دعا سکھا دی۔ ف[1]علاوہ ازیں کتبِ احادیث میں اور بھی اکثر ایسی مثالیں مذکور ہیں ۔ فافہم
Flag Counter