Maktaba Wahhabi

267 - 668
اگر یہ سچ ہے تو برہمن سے پہلے جن خاوندوں سے عورتوں کا نکاح کیا گیا اور اُن سے اولاد بھی پیدا ہوئی کیا وہ اولاد حلال ہے یا حرام؟ اگر حلال ہے تو پہلے مرد بھی عورتوں کے اصلی خاوند ہوئے اور اِس صورت میں برہمن کے عورتوں کا اصلی خاوند ہونے کا دعوی باطل ہوا۔ اگر اِس کو حرام تسلیم کیا جائے تو وید بھگوان نے برہمن سے پہلے کشتری اور ویش سے عورتوں کا نکاح کرا کر اس کو حرام فعل کرنے کا حکم کیوں دیا؟ پس چاہیے تھا کہ عورتوں کا نکاح کشتری اور ویش سے بند کرا کر صرف برہمن سے ہی کرایا جاتا۔ اگر اِس پر عمل کیا جائے تو ایک اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ تمام کشتری، ویش اور شودر وغیرہ برہم چاری بن کر بغیر نکاح کے ہی زندگی بسر کریں تو اس صورت میں ہمارے سماجی متروں کی تعداد نہایت کم ہو جائے، اکیلے برہمن بے چارے کس قدر اولاد پیدا کر سکیں گے۔ فافہم چہارم: سب ورنوں سے عالی درجہ برہمن کو حاصل ہے جس کے لیے اجازت ہے کہ غیر برہمنوں کی عورتوں کو جس قدر چاہے اپنے لیے پسند کرے، یعنی اُن کو خوبصورت دیکھ کر اُن پر عاشق ہو جائے، اُن پر غاصبانہ قبضہ کرے۔ اُس کی تعداد کی کوئی حد نہیں ، بیس ہو، تیس ہو، چالیس ہو وغیرہ۔ پس اگر لاتعداد عورتوں کو استعمال کرنا معیوب اور قابلِ طعن ہوتا تو عالی درجہ برہمن کو اِس کی اجازت نہ دی جاتی۔ زیادہ عورتوں سے مرتبہ میں ترقی ہوتی ہے۔ جب ہی تو برہمن کو خصوصیت کے ساتھ اِن کی اجازت دی گئی ہے۔ دوسرے ورن کشتری ویش وغیرہ اِس سے مستثنیٰ اور الگ ہیں ۔ تا ہم وید سے کثرتِ ازواج کا مسئلہ تو ثابت ہو چکا جو اسلام کے عین مطابق ہے۔ پس سماجی متروں کو اسلامی تعددِ ازواج پر طعن کرنے سے زبان کو روکنا چاہیے۔ مزید برآں جس طرح برہمن کو لاتعداد عورتیں استعمال کرنے کی خصوصیت ہے، پس ٹھیک اسی طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہ نسبت اُمتی کے چند نکاح کرنے کی، جن کی تعداد محدود ہے، اجازت عطا کی گئی ہے۔ فافہم علاوہ ازیں منو سمرتی، جس کو سوامی جی وید کے بعد نہایت معتبر اور مستند جانتے ہیں ، میں لکھا ہے: ’’بڑی عورت میں پہلے لڑکا پیدا ہوا ہو تووہ گؤ اور ایک بیل لیوے اور اِس کے بعد چھوٹی عورت میں جو لڑکے پیدا ہوئے ہیں ، وہ اپنی والدہ کی شادی کے سلسلے سے بزرگی کو پا کر یقینا باقی ماندہ گؤوں
Flag Counter