Maktaba Wahhabi

275 - 668
نکاح کیے، پچاس برس کی عمر کے بعد کیے۔ طرفہ یہ کہ سوائے حضرت عائشہ صدیقہ کے تمام امہات المومنین بیوہ تھیں ۔ شہوت پرست تو اپنے واسطے کنواری عورتوں کی خواہش کرتا ہے۔ پس آپ کی پچاس برس کی عمر تو مخالفین کے نزدیک بھی بے داغ ہے۔ پادری صاحب ناراض نہ ہونا، آپ کی الہامی کتاب نے تو یہاں تک غضب کر دیا کہ خدا تعالیٰ میں نفسانی خواہش اور اس کا ہمیشہ مغلوب رہنا اور اسے عورتوں کا عاشق ہونا ثابت کیا ہے۔ حزقیل نبی کی کتاب کا باب ۲۳ غور سے پڑھو، جس میں خدا کی دو عورتوں کا ذکر ہے۔ خدا مزے لے لے کر ان کا اس طرز سے ذکر کرتا ہے، جس سے شرم و حیا کا پردہ چاک ہو جاتا ہے۔ حزقیل نبی کہتے ہیں : اور خدا کا پیغام مجھے پہنچا اور اس نے کہا کہ اے آدم زاد! دو عورتیں تھیں ، جو ایک ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئیں ۔ انھوں نے مصر میں زنا کاری کی اور اپنی جوانی میں یار باز ہوئیں ۔ وہاں ان کی چھاتیاں ملی گئیں اور وہاں ان کے بکر (دوشیزگی) کے پستان چھوئے گئے۔ ان میں کی بڑی بہن کا نام اہولہ اور اس کی بہن اہولیہ۔ اور وہ میری جورواں ہوئیں اور بیٹے اور بیٹیاں جنیں ۔ یعنی وہ دو عورتیں زناکار اور فاحشہ خدا کی بیویاں تھیں ۔ یہ کیسانجس اور بدترین بہتان ہے۔ اول یہ کہ خدا تعالیٰ بیوی اور اولاد سے منزہ اور پاک ہے، مگر جب خدا تعالیٰ کی طرف بیویوں کو منسوب بھی کیا گیا تو ایسی فاحشہ، عشقباز اور زنا کار جن کی چھاتیاں اور پستان ملے گئے اور بکارت کو توڑا گیا۔ بھلا خدا کو اتنا بھی علم نہ تھا کہ یہ عورتیں بدکار ہیں ؟ ان سے پرہیز کرنا ضروری ہے، ان کے بجائے نیک عورتوں کو جورو بنانا چاہیے۔ پھر طرفہ یہ کہ خدا نے ایک بیوی پر قناعت نہیں کی، بلکہ اس میں اس قدر نفسانیتِ عشق اور شہوت کا غلبہ ہوا کہ دو عورتوں کو جورواں بنایا۔ عیسائیوں نے جب یہ خیال کیا کہ اس اعتراض کا جواب دینا مشکل ہے تو اس آیت کو نئی بائبل میں یوں بدل ڈالا کہ وہ میری ہی ہیں ، حالانکہ اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ وہ دونوں عورتیں خدا کی ہی ہیں اور کسی کی نہیں ۔ عربی بائبل میں ہے: ’’ھما صارتا لي‘‘ یعنی وہ دونوں خاص میرے ہی لیے ہیں ۔ پھر خدا تعالیٰ کا ان دونوں کا یاروں کا عاشق ہونا، زناکاری کرنا اور ان کی چھاتیاں ملے جانے کا مزے لے لے کر ذکر کرتا ہے۔ (حزقیل باب ۲۳ درس ۲۱)
Flag Counter