Maktaba Wahhabi

295 - 668
چھوڑ دیتے تو نو ہی رہ جاتی۔ اب قابلِ غور امر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب تیس مردوں کی قوت عطا کی گئی تو آپ تیس عورتوں سے نکاح کرنے کا حق رکھتے تھے۔ جب بھی طعن کے مورد نہیں ہو سکتے، کیونکہ حلال چیز کو حسبِ طاقت استعمال کرنا، شرعاً و عقلاً معیوب نہیں ہے، جیسا کہ سابقاً گزرا ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بجائے گیارہ عورتوں پر ہی قناعت کی، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت کا تیسرا حصہ ہیں ۔ باقی دو حصوں کی طاقت کو زہد و تقوی اور ضبطِ نفس سے مغلوب کیا۔ کیا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفایت، تحمل اور عصمت کا زبر دست ثبوت نہیں ہے؟ یقیناً اب ہمیں اس بات پر غور کرنا ہے کہ باقی ماندہ جو دو حصے قوت تھی، وہ کہاں صرف کی جاتی تھی۔ اسے خدا کی عبادت، نمازِ تہجد اور نفلی روزے پر صرف کیا جاتا تھا۔ حدیث شریف بھی ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم تہجد میں اتنا لمبا قیام کرتے ہوئے قرآن پڑھتے تھے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں قدم مبارک پر ورم آجاتا تھا۔ (مشکاۃ باب التحریض علی قیام اللیل) [1] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کثرت سے نفلی روزے رکھتے تھے، یہاں تک کہ ہم کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے چھوڑنے کے نہیں اور نفلی روزے چھوڑ بھی دیتے تھے، یہاں تک کہ ہم کہتے تھے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے نہ رکھیں گے۔ علاوہ ازیں شعبان کا سارا مہینا چند دنوں کے سوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نفلی روزوں ہی میں ختم ہو جاتا۔ (مشکاۃ باب الصیام التطوع) [2] علاوہ ازیں آپ کی گھر کی گزران کا یہ عالم تھا کہ آپ کو مع اہل و عیال کے جو کی روٹی سیر ہو کر دو دن پے درپے نہیں ملتی تھی، حتی کہ آپ دنیا سے انتقال فرما گئے۔ (مشکاۃ، باب ما کان من عیش النبي) [3] جو مال ہاتھ میں آتا اس کو خدا کی راہ میں غربا اور مساکین کے درمیان تقسیم کرتے ہوئے فاقہ کشی میں زندگی بسر کرتے۔ نیند چھوڑ کر لمبی نماز پڑھتے اور کثرت سے نفلی روزے رکھنے سے جسم کی وہ قوت جسے ازواج پر خرچ کیا جاتا ہے، کم ہو جاتی ہے۔ پھر جب اس پر فاقہ کشی کا اضافہ کیا جائے تو قوت میں نہایت کمی پیدا ہو جاتی ہے۔ ہر چند آپ کی قوت کے صرف کا محل آپ کی قولی و بدنی
Flag Counter