Maktaba Wahhabi

317 - 668
کی دایہ بھی تھی۔ پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے، تو فرمایا: تو اپنا نفس مجھے بخش دے، یعنی تیرا میرے ساتھ نکاح ہے۔ اس نے جواب دیا کہ شہزادیاں بھی رعایا کے آدمیوں کو اپنا نفس بخش دیا کرتی ہیں ۔ تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تسکین کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا، اس نے کہہ دیا: میں اللہ کے ساتھ پناہ پکڑتی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے بڑے کے ساتھ پناہ پکڑی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کہ جونیہ کو دو سفید کپڑے دے کر اس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نکاح کیا ہوا تھا۔[1] یہ تو ہے وہ حدیث جس میں پنڈت جی نے تین خیانتیں کی ہیں : اول: یہ کہ سوقہ کو بازاری لکھا ہے، یعنی اس عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بازاری کہہ دیا، حالانکہ یہ بالکل غلط ہے، سوقہ کے معنی رعایا کے ہیں ۔ یعنی سوقہ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بادشاہ نہ ہو، خواہ کتنے مرتبے کا آدمی ہو۔ دوم: یہ کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا ہاتھ بڑھایا، تو وہ چلا اٹھی، حالانکہ حدیث میں اس کے چلانے کا ذکر تک نہیں ہے۔ سوم: اس حدیث میں صاف مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے داخل ہونے سے پیشتر اس سے نکاح کیا ہوا تھا۔ پنڈت جی نے اس لیے اس کو نظر انداز کیا کہ ثابت ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلانکاح اس پر دست اندازی کی تھی، حالانکہ یہ بالکل غلط اور باطل ہے۔ اپنی منکوحہ کے قریب جا کر اس پر ہاتھ بڑھانا کسی مذہب میں بھی معیوب نہیں سمجھا گیا۔ فتح الباری میں بحوالہ تاریخ ابنِ سعد مندرجہ ذیل احادیث کو نقل کیا گیا ہے۔ جن سے اس قصے کی پوری وضاحت ہوتی ہے۔ نعمان بن ابی الجون کندی مسلمان ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے اپنی بیٹی کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی: میری بیٹی عرب میں بہت خوبصورت ہے، اب وہ بیوہ ہو چکی ہے۔ اس کی شادی اس کے چچا زاد کے ساتھ ہوئی تھی اور وہ فوت ہو چکا ہے اور اس کا دل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف راغب ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کرنے کا شوق رکھتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور کیا، اس نے عرض کی: کسی آدمی کو بھیج دیجیے کہ وہ اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باپ کے ساتھ ابو اسید ساعدی کو بھیجا، وہ وہاں تین دن ٹھہرا۔ پس وہ اس کو مدینہ منورہ میں لایا۔ پس اس نے اس کو بنی ساعدہ میں اتارا۔ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔[2]
Flag Counter