Maktaba Wahhabi

331 - 668
ٹھہرنا خدا کی طرف سے کوئی فرض واجب نہیں ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں تو ایک کی باری میں دوسری کے پاس بھی جا سکتے ہیں ، اس اجتہاد کی بنا پر ان سے لغرش ہوئی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے کی و جہ سے اس شبہہ کا بھی ازالہ ہو گیا۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول سمجھتی تھیں اور ان کے ہر قول و فعل کو اسوئہ حسنہ مانتی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے اعتباری کیسے کر سکتی تھیں ؟ جو صریح کفر ہے۔ پنڈت جی کی حیرت انگیز چالاکیوں پر تعجب آتا ہے کہ عنوان قائم کرتے ہوئے ایسے دل آزار الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ جن سے سخت اعتراض، بلکہ زہریلا طعن پیدا ہو اور اپنے گھر کی طرف نظر نہیں ڈالتے کہ اس میں کس قدر ظلم ہو رہا ہے۔ ہم ان کے پرمیشور کی بے اعتباری دکھاتے ہیں ، ملاحظہ ہو حسبِ ذیل منتر: پرمیشور فرماتا ہے: اے بیاہے ہوئے مرد عورتو! تم دونوں رات کو کہاں ٹھہرے تھے؟ اور دن کہاں بسر کیا تھا؟ تم نے کھانا کہاں کھایا؟ (رگ وید اشٹک ادھیائے سورگ ۱۸ منتر ۲ مقدس رسول صفحہ: ۷۵) کیسے ہی فضول اور بے خبری کے سوال ہیں !؟ پرمیشور شادی شدہ مرد عورتوں سے ایسے لاعلمی کے سوال کرتا ہے، گویا کہ اس کو علم تک نہیں ، اس کو بیاہے ہوئے آریہ مرد عورتوں پر تو بے اعتباری ہے، لیکن نیوگی مرد اور نیوگن عورت سے ایسے سوال نہیں کرتا۔ اس کو ان پر اس لیے اعتبار ہے کہ وہ نیوگ جیسی رسمِ شرم ناک کو نکاح سے اچھی جانتا ہے۔ پھر سوال کیسے فضول ہیں کہ تم رات کو کہاں رہے؟ کیا با حیا مرد اور عورت اس کا جواب دے سکتے ہیں ۔ اس کو ان پر اس لیے بے اعتباری تھی کہ شاید کوئی کار روائی اس کے خلاف نہ کر بیٹھیں ۔ مہاشے متروں کی عادت ہے کہ جب ان کو کسی اعتراض کا مدلل منہ توڑ جواب دیا جائے جس سے ان کے منہ پر مہرِ سکوت لگ جائے تو پھر ایسا طعن کرتے ہیں جو قابلِ برداشت نہ ہو، جس سے دل زخمی ہو جاتا ہے اور جذبات کو سخت ٹھیس لگتی ہے، جیسا کہ رنگیلا مصنف، جس کا دل تعصب کے زہر سے آلودہ ہے اور عداوت کی زنجیروں میں گرفتار ہے، حسبِ ذیل طعن کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچیس سال کی تھی اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پندرہ سال بڑی تھیں ۔ وہ کہتا ہے: ماں کی ماں اور
Flag Counter