Maktaba Wahhabi

406 - 668
درج کریں ، بلکہ وہ اپنی معلومات کے مواد کو جمع کر دیتے تھے۔ علامہ علی جرجانی کے رسالے میں مذکور ہے کہ مفسرین نے جعلی روایات کو جگہ دینے میں خطا کی ہے، مگر جس کو خدا نے محفوظ رکھا۔ الغرض تمام تفاسیر کی روایات کی چھانٹ محقق لوگ کرتے ہیں ، جن کو فنِ رجال کا علم ہوتا ہے۔ یہی لوگ قواعد کے لحاظ سے صحیح، ضعیف اور موضوع کو الگ الگ کر کے دکھا دیتے ہیں ۔ ہم نے یہ تفصیل آریوں اور عیسائیوں کو آگاہ کرنے کے لیے درج کی ہے کہ اسلام پر اعتراض کرتے وقت صرف تفسیری موضوعات ہی کو نہ لکھ مارا کریں ، بلکہ صحیح روایات کی بنا پر اعتراض وارد کیا کریں ۔ عیسائیوں کا بھی یہی اصول ہے کہ اپنی تفاسیر کی منقولات کو وہ بھی نہیں مانتے۔ کئی دفعہ میدان مناظرہ میں اتفاق ہوا۔ جب اہلِ اسلام تفسیر پادری سکاٹ اور تفسیر پادری عماد الدین اور اقوال پادری اتھناسیس وغیرہ پیش کرتے ہیں توفوراً انکار کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تفاسیر چوں کہ الہامی نہیں ہیں ، لہٰذا ہم پر کوئی حجت نہیں ہے۔ اسی طرح اگر چار انجیلوں کے ما سوائے دیگر انجیلوں کو پیش کیا جائے تو چلا کر کہہ دیتے ہیں : چونکہ یہ سب انجیلیں جعلی ہیں ، لہٰذا ہم ان کو نہیں مانتے۔ طرفہ یہ کہ یہی پادری ٹھاکر داس، جو ہمارے مخاطب ہیں ، اپنی کتاب مسمیٰ بہ ’’انجیل یا قرآن‘‘ میں بہت سی انجیلوں کو جعلی ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ انجیلیں ، مثلاً: انجیلِ طفولیت و برناباس اور انجیل یعقوب ہم پر کوئی حجب نہیں ہیں ، جو بدعتیوں نے بنائی ہیں ۔ (ص: ۶۹ تا ۷۱) پھر اسی کتاب کے ص: ۹۵ میں لکھتے ہیں کہ مسیحی بدعتی جو یسوع مسیح کی الوہیت کا انکار کرتے ہیں ، ان میں سے سر نتھس، تھیوڈونس اور ہائی زن ٹیٹس دوسری صدی عیسوی میں اس بدعت کے بانی گذرے ہیں ، انھوں نے اپنے خیال کی تائید کے لیے جعلی انجیلیں بنائی تھیں ، جیسے پطرس کا مکاشفہ اور سرنتھس کی انجیل جو عبرانیوں کی انجیل کہلاتی ہے۔ اس بیان سے روزِ روشن کی طرح ظاہر ہو گیا کہ دوسری صدی میں ہی اصل انجیلوں کے ضائع ہونے کی وجہ سے عیسائی مذہب میں گڑ بڑ اور ہلچل مچ گئی۔ ہر ایک نے اپنے اپنے خیالات کے مطابق الگ الگ انجیلوں کو تصنیف کیا۔[1]بس تو اب بھی نہیں ہوئی، کیونکہ مروجہ اناجیل میں کمی بیشی کا کافی ثبوت موجود ہے، مثلاً: ۱۸۷۳ء کی مطبوعہ انجیل میں ۳۷ آیات زائد ہیں اور ۱۹۲۲ء کی مطبوعہ انجیل
Flag Counter