Maktaba Wahhabi

442 - 668
سب جنات اور آدمیوں سے دوزخ بھر ا جائے گا۔ پادری صاحب کو لفظ ’’أجمعین‘‘ کے سمجھنے میں غلطی لگی ہے، حالانکہ ’’أجمعین‘‘ کا لفظ جس کے معنی ’’سب‘‘ ہیں ، ایک چھوٹے سے گروہ پر بھی وارد ہوتا ہے۔ یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کو فرماتے ہیں ۔ ﴿وَاْتُوْنِیْ بِاَھْلِکُمْ اَجْمَعِیْنَ﴾ [یوسف: ۹۳] ’’میرے پاس سب اہل و عیال کو لاؤ۔‘‘ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے اہل وعیال بہ نسبت آدمیوں کے نہایت تھوڑے تھے۔ صالح علیہ السلام کی قوم کے کفار کے متعلق ارشادِ الٰہی ہے: ﴿اَنَّا دَمَّرْنٰھُمْ وَقَوْمَھُمْ اَجْمَعِیْنَ ﴾ [النحل: ۵۱] ’’ہم نے ان کفار اور ان کی قوم سب کو ہلاک کر دیا۔‘‘ حالانکہ صالح علیہ السلام کے زمانے کے کفار بہ نسبت سب آدمیوں کے اتنے کم اور اقل تھے کہ ان کے پاسنگ بھی نہ تھے، جن کے لیے ﴿اَجْمَعِیْنَ﴾ کا لفظ وارد ہے۔ آیت زیرِ بحث میں ﴿اَجْمَعِیْنَ﴾ کا لفظ خصوصیت کے ساتھ پادری صاحب جیسے سب کفار کے لیے ذکر کیا گیا ہے۔[1] فافہم 12۔سیئات: (آیت نمبر۲ کی مشکلات): انسانی افراد اپنے خیالات میں ہمیشہ مختلف رہیں گے اور ان کو اسی اختلافات پر پیدا کیا ہے۔ جب خدا نے ان کو اسی اختلافات پر پیدا کیا ہے جو شانِ خداوند کے سراسر منافی ہے اور وہ آپس میں ہمیشہ مختلف بھی رہیں گے اور پھر اسی اختلاف پر جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے دوزخ میں جانے کا سبب ٹھہرانا کہاں کا عدل اور انصاف ہے؟ (شیر، ص:۱) نجات :کون کہتا ہے کہ خدا نے انسانی افراد کو اختلاف پر پیدا کیا ہے؟ خدا تعالیٰ نے انسان کو پیدا کر کے اختیار دے رکھا ہے کہ وہ اپنے ارادے کی بنا پر چاہے ایمان لائے اور اگر چاہے تو کفر اختیار کرے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:
Flag Counter