Maktaba Wahhabi

461 - 668
اگر اس کو بفرضِ محال عیسائیوں کے کفارے کی طرح بھی تسلیم کر لیا جائے تاہم پھر بھی یہ عیسائیوں کے کفارے کے سخت مخالف ہے۔ یہودی، عیسائی، کافر، مسلمان کے بدلے دوزخ میں جائیں گے، یعنی بد آدمیوں کو نیک آدمیوں کے بدلے سزا دی جائے گی، جیسا کہ بائبل میں آتا ہے: ’’صادق مصیبت سے رہائی پاتا ہے اور اس کے بدلے میں شریر پکڑا جاتا ہے۔‘‘ (سلیمان کے امثال ب ۱۱ درس ۸) 26۔سیئات :کیا فوجداری کے یہی معنی ہیں کہ ایذا تو ہو لڑکے کو اور ذبح کیا جائے بکری کو۔ کیا میں مولوی صاحب سے پوچھ سکتا ہوں کہ حدیث بالامیں ایذا سے کیا مراد ہے۔ کیا اس گناہ کی بابت تو نہیں جو حضرت آدم علیہ السلام سے وراثتاً چلی آئی ہے؟ (شیرا فگن) نجات :حضرت سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ’’لڑکے کے ساتھ عقیقہ ہے، اس کی طرف سے خون بہاؤ اور اس سے ایذا کو دور کرو۔‘‘[1] پس ایذا کے دور کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ساتویں دن اس کا سر منڈوایا جائے، یہ مطلب نہیں کہ لڑکے نے گناہ کیا ہے، کیونکہ ہر بچہ اسلامی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ مرفوعاً کہتے ہیں : ’’ایسا کوئی بچہ نہیں مگر اس کی پیدایش اسلامی فطرت پر ہوتی ہے۔‘‘ (مشکاۃ) [2] جب ہر بچہ بے گناہ پیدا ہوتا ہے اور عقیقے کے جانور کو اس کے گناہ کے بدلے نہیں ذبح کیا جاتا، بلکہ یہ نعمت عظمی جو خدا تعالیٰ سے ملی ہے، اس کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔ آدم علیہ السلام کے گناہ کی وراثت کا مسئلہ بالکل غلط ہے، وہ تو معصوم نبی ہیں ۔ بھول کر غلطی کرنا گناہ نہیں ۔ البتہ عیسائی مذہب میں لڑکا ماں کے پیٹ میں گناہ کی سزا بھگتنے کے واسطے رہتا ہے، جیسا کہ حضرت داود علیہ السلام کا ارشاد ہے:
Flag Counter