Maktaba Wahhabi

499 - 668
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ ان دنوں آرمینیہ اور آذر بائیجان میں اہلِ عراق کے ساتھ مل کر اہلِ شام سے جہاد کرتے تھے اور حذیفہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے قراء تِ قرآن میں اختلاف کی بنا پر فکر مند ہوئے اور عثمان رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے کہ اے امیر المومنین! قبل اس کے کہ یہ اُمت یہود و نصاریٰ کی طرح اختلاف کرنے لگے، اس بات کا کوئی انتظام کرنا چاہیے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے اس مشورے کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے صحیح تسلیم کیا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے قرآن منگا کر لکھوایا۔ یہ وہی قرآن تھا جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنی وفات سے پہلے جمع کرا گئے تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن لکھوانے کے لیے چار صحابہ رضی اللہ عنہم کا انتخاب کیا۔ جن میں سے پہلے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ جو اس کام کو پہلے بھی پایۂ تکمیل تک پہنچا چکے تھے اور ان کے علاوہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور سعید بن عاص رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو بھی ان کا معاون بنا دیا اور حکم فرمایا کہ اگر تم چاروں کسی بات میں اختلاف سمجھو تو اس کو قریش کے رسم الخط میں لکھو، کیوں کہ قرآن مجید انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے، لیکن سوائے تابوت کی تاکی شکل کے۔ پھر لطف کی بات یہ ہے کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ان قریش حفاظ کے درمیان ایک شوشہ کا بھی اختلاف نہ ہوا۔ پس اسے قریش کی زبان کی شکل میں ت کو تا طویلہ لکھایا اور ۃ کی اس شکل کو چھوڑ دیا۔ (ترمذي، کتاب التفسیر۔ سورۂ توبہ) [1] پھر ان چاروں حفاظ نے قران کو مصاحف میں لکھ لیا اور اصل مسودہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس بھیج دیا۔ ان کے علاوہ باقی تمام قرآن کے نسخوں کو جلا دینے کا حکم نافذ کر دیا، کہ جن میں قرآن کے ساتھ تشریحی اور تفسیری الفاظ بھی لکھے ہوئے تھے۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم قرآن کو لکھ رہے تھے تو میں نے سورت احزاب کی ایک آیت کو گُم پایا، جس کو میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سُنا کرتا تھا اور ہم نے اس آیت کی تلاش کرنی شروع کر دی۔ یہاں تک کہ ہم نے اس آیت کو حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ
Flag Counter