Maktaba Wahhabi

595 - 668
جامع ترمذی اور مسند امام احمد میں ایک حدیث ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن میں بھیجنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إِذَا جَائَ کَ أمْرٌ بِمَاذَا تَقْضِيْ؟ قَالَ: أَقْضِيْ بِکِتَابِ اللّٰہِ، قَالَ: فَإِنْ لَّمْ تَجِدْ فِيْ کِتَابِ اللّٰہِ، قَالَ: فَفِيْ سُنَّۃِ رَسُوْلِ للّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِيْ سُنَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ، قَالَ: فَأَجْتَھِدُ بِرَأْیِيْ۔۔۔‘‘[1] ’’اے معاذرضی اللہ عنہ! جب تیرے پاس کوئی کام آئے تو تم کس چیز کے ساتھ فیصلہ کرو گے؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اللہ کی کتاب قرآن پاک سے فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تو اللہ کی کتاب میں نہ پائے تو پھر تم کیا کرو گے؟ عرض کی: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو تلاش کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی نہ پائے تو پھر؟ عرض کی: اس صورت میں مَیں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اللہ کا شکر ادا کیا اور فرمایا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، جس نے اپنے رسول کے رسول (معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ) کو اس کی توفیق بخشی۔‘‘ اشکال: لیکن یاد رہے کہ اس حدیث سے مقلدین حضرات استدلال کرتے ہیں کہ کتاب و سنت کے علاوہ یمنی لوگ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اجتہاد پر عمل کیا کرتے تھے اور یہی تقلیدِ شخصی ہے۔ الجواب: اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اجتہادات کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مقابلے میں کبھی پیش نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ جب قرآن اور حدیث سے کوئی مسئلہ نہ مل سکے تو واقعی اجتہاد کیا جا سکتا ہے، جس کے صحیح یا غلط ہونے کا احتمال ہے، لیکن جہاں کسی بزرگ کو کوئی مسئلہ نہ پہنچا ہو اور انھوں نے اجتہاد کر لیا ہو اور بعد میں حدیثِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم مل جائے اور اجتہاد اس کے خلاف ہو تو امام کو بھی اس سے رجوع کرنا لازم ہے اور عوام کو بھی اسے چھوڑ کر ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا فرض ہو جاتا ہے۔ فافہم۔
Flag Counter