Maktaba Wahhabi

616 - 668
’’قبۃ مضروبۃ علیکم‘‘ یعنی لوگو! آسمان تم پر لگائے ہوئے خیمے کی طرح ہے، حالانکہ آسمان نفسِ زمین اور لوگوں میں جتنے فاصلے پر ہے وہ ظاہر ہے، اسی طرح گنبد اگرچہ نفسِ قبر سے فاصلے پر ہوتا ہے، تاہم محاروہ عرب کے لحاظ سے قبر ہی پر سمجھا جاتا ہے۔ وأمثلتہ في العربیۃ کثیرۃ۔ قال: بعض نے اسی نہی کو قبور عوام المسلمین پر محمول کیا اور علما و مشائخ المجتہد کی قبور کو اس سے مستثنیٰ سمجھا۔ اقول: آپ کو چاہیے تھا کہ مستثنیٰ کی دلیل تو بیان کرتے، جس کا یہ مفہوم ہوتا کہ بزرگوں کے مزارات پر عمارت ہونی چاہیے، صراحتاً نہ سہی، اشارۃً ہی سہی، حالانکہ آپ نے ایک حرف بھی نہیں لکھا۔ اہلِ علم کے نزدیک یہ مسلم ہے کہ حدیث کے عموم کو حدیث ہی سے خصوصیت ہوتی ہے۔ ﴿مَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَ لَا مُؤ مِنَۃٍ﴾ یعنی نہیں لائق واسطے مومن مرد کے اور نہ مومن عورت کے جس وقت کہ فیصلہ کرے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کسی کام کا یہ کہ ہو واسطے ان کے اختیار اپنے کام کا۔ اس آیت نے نہایت زور سے ثابت کر دیا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے پر کسی شخص کا قول حجت پکڑنے کے لائق نہیں ، خواہ وہ کیسا ہی بزرگ کیوں نہ ہو، کیوں کہ لفظ مومن اور مومنہ نکرہ ہے جو غیر معین ہے، یعنی عمومیت کے لحاظ سے سب کو شامل ہے، گو وہ مومن کوئی صحابی یا تابعی یا مجتہد ہو، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال خداکی وحی ہے، جو خطا اور ہر قسم کی لغزش سے معصوم ہے۔ آپ کے سوا اور لوگوں سے خطا کا وقوع ممکن ہے۔ [1]
Flag Counter