Maktaba Wahhabi

66 - 668
اگر حضرت مسیح سے پہلے تورات یا نبیوں کی کتابیں تکمیل کو پہنچی ہوئی ہوتیں تووہ ان کو پورا کرنے کے لیے تشریف نہ لاتے۔ اب ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ انھوں نے ان کو پورا کیا یا نہیں ؟ پس انجیل ہمیں اس بات کی راہنمائی کرتی ہے کہ وہ اپنی تعلیم ہی کو پورا نہیں کر سکے تو پہلی کتابوں کی تکمیل کیسے کر سکتے تھے؟ انجیل میں ان کا اپنا ارشاد ہے: ’’ مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے، مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے، لیکن جب وہ، یعنی روحِ حق آئے گا تو تم کو سچائی کی راہ دکھائے گا، اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا۔‘‘ (یوحنا،ب ۱۶، درس، ۱۲ تا ۱۴) حضرت مسیح علیہ السلام کا صاف اقرار ہے کہ انھوں نے اپنے شاگردوں کو اپنی تعلیم کی تمام باتوں سے آگاہ نہیں کیا۔ اگر تمام باتیں بتا جاتے تو ان کی تعلیم کامل ہو جاتی، لیکن شاگردوں کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’میرے بعد ایک روحِ حق آنے والی ہے، جو تمھیں سچائی کی راہ دکھائے گی۔‘‘ روح الحق کے بارے میں مسلمانوں اور عیسائیوں میں پرانا تنازع چلا آتا ہے۔ روحِ حق سچے نبی کو کہتے ہیں ، جیسا کہ یوحنا کا پہلا خط اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ بہت سے جھوٹے نبی دنیا میں نکل کھڑے ہوئے ہیں ۔ جو کوئی روح اقرار کرے کہ یسوع مسیح مجسم ہو کر آیا ہے تووہ خدا کی طرف سے ہے اور جو کوئی روح یسوع کا اقرار نہ کرے، وہ خدا کی طرف سے نہیں ہے۔ (باب ۴، درس ا تا ۳) اس عبارت میں روح کے لفظ سے نبی مراد لیا گیا ہے۔ جو نبی مسیح علیہ السلام کی سچائی کا اقرار کرے، وہ سچا ہے اور جو انکار کرے وہ جھوٹا۔ پس روحِ حق کے معنی ہوئے سچا نبی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن و حدیث میں حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت کا اقرار کیا اور پر زور اس کی تصدیق بھی کی۔ پس حضرت مسیح علیہ السلام جس روح الحق کا حوالہ دیتے ہیں ، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، جنھوں نے تمام سچائی کی راہ دکھا کر دینِ اسلام کو کامل کر دیا۔ پھر اس کی صفت میں یہ بھی ارشاد ہے کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا، یہ تعریف بھی لفظ بہ لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر صادق آتی ہے۔ قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی* اِِنْ ھُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی﴾ [النجم : ۳۔ ۴] ’’یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش سے نہیں بولتے، ان کا بولنا نہیں مگر خدا کی وحی سے۔‘‘
Flag Counter