Maktaba Wahhabi

90 - 668
کو خرقِ عادت عذاب نے تباہ و برباد کر دیا تھا، یہ رسالت رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی و جہ سے ایسے عذاب سے مانع ہے۔ پس مومن کے لیے دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں ہوئی اور بلند درجات ملے، بخلاف کافر کے کہ اس کو قیامت میں کفر کی وجہ سے ابدالآباد تک عذاب ہوتا رہے گا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی وجہ سے کفار بھی دنیا میں رحمۃللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے بہرہ ور ہیں ، کیونکہ ان پر دنیا میں خرقِ عادت مہلک عذاب نہیں آتا۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی یہی تفسیر مروی ہے۔ (ابن کثیر تحت آیت مذکورہ) [1] تاریخ ابن کثیر میں ’’فصل في خروجہٖ صلی اللہ علیہ وسلم مع أبي طالب إلی الشام‘‘ ہے۔ اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ابو طالب نے بغرضِ تجارت قریش کے سواروں کے ہمراہ ملک شام کا سفر اختیار کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ساتھ لے کر روانہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر اس وقت بارہ سال کی تھی۔ راستے میں ایک راہب سے، جو عیسائی مذہب کا بڑا عالم تھا، ملاقات ہوئی۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس راہب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا: ’’ھٰذَا سَیِّدُ الْعَالَمِیْنَ، ھٰذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، بَعَثَہُ اللّٰہُ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ‘‘[2] ’’یعنی یہ تمام جہان والوں کے سردار ہیں ، یہ رب العالمین کے رسول ہیں ، ان کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا ہے۔ تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی میں اس حدیث کے ماتحت لکھا ہے کہ ابن حبان نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں روایت کیا ہے، پس یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح ٹھہری۔ حاکم، بیہقی اور ابوبکر خرائطی وغیرہ حفاظ نے بھی اسے روایت کیا ہے، ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کے رجال کی توثیق کی ہے، مشکاۃ باب المعجزات فصل ثانی کے حاشیے پر، بحوالہ اصابہ، ابن حجر عسقلانی نے اس کی صحت کو نقل کیا، لہٰذا اس پر امام ذہبی کی کلامِ جرح کا، جو انھوں نے کتاب تلخیص وغیرہ میں کی ہے، کوئی اعتبار نہیں رہا۔ اس حدیث سے تین امور کا ثبوت بہم پہنچتا ہے: 1۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم محض جنوں ، انسانوں کے ہی سردار نہ تھے، بلکہ ہر چیز جو عالم کے اندر شامل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب پر سرداری عطا کی گئی۔
Flag Counter