Maktaba Wahhabi

92 - 668
ہوتی تھی، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم گوسالہ پرستی کے گناہ سے آلودہ ہوئی، پھر جب انھوں نے پشیمان ہو کر توبہ کی تو ان کو ارشاد ہوا کہ اپنی جانوں یعنی ایک دوسرے کو قتل کرو۔ جب انھوں نے ایک دوسرے کو قتل کر کے خون کی نہریں بہائیں تو ان کے گناہ معاف ہوئے۔ (سورۃ البقرۃ، پارہ اول) (( عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللّٰه عنہ قَالَ: قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم !اُدْعُ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ، قَالَ: إِنِّيْ لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانَا إِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمۃً لِّلْعَالَمِیْنَ)) (صحیح مسلم) [1] ’’یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں پر بددعا کریں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں لعنت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا، اس کے سوا نہیں ہے کہ میں تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔‘‘ یعنی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام مخالفوں پر بددعا کرتے تو سابقہ انبیا علیہم السلام کی طرح سب کے سب ہلاک و تباہ ہو جاتے ، لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین تھے، باوجود مشرکین کے ہاتھوں طرح طرح کی تکلیف اٹھانے کے ان پر بددعا کر کے ان کو ہلاک نہیں کرایا، طائف کا واقعہ اس کی کافی دلیل ہے۔ بخلاف سابقہ انبیا علیہم السلام کے کہ ان میں سے بعض نے اپنے مخالفوں پر بددعا کر کے بیخ کنی کرا دی، جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا کہ اے رب! کافروں میں سے زمین پر کسی کو نہ چھوڑ۔ اگر ان کو تو چھوڑ دے گا تو ان میں سے کافر ہی پیدا ہوں گے۔ اس بددعا کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے مخالف سب کے سب طوفان سے ہلاک ہو گئے۔ (سورت نوح: ۲۷) ((عن جبیر بن مطعم رضی اللّٰه عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم : إِنِّيْ رَحْمَۃٌ، بَعَثَنِيَ اللّٰہُ، وَلَا یَتَوَفَّانِيْ حَتّٰی یُظْھِرَاللّٰہُ دِیْنَہٗ)) (معجم طبراني، قال أحمد بن صالح: أرجو أن یکون الحدیث صحیحا، تفسیر ابن کثیر زیر آیۃ رحمۃ للعالمین) [2] ’’یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں رحمت ہوں ، اللہ نے مجھ کو بھیجا ہے اور مجھ کو فوت نہیں کرے گا جب تک وہ اپنے دین کو غالب نہ کر لے۔‘‘
Flag Counter