Maktaba Wahhabi

119 - 692
نصف مد کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔‘‘[1] ٭ مسلمان کا عقیدہ ہے کہ جملہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد قیامت تک کے تمام لوگوں سے علی الاطلاق ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ افضل ہیں اور ان کے بعد بالترتیب حضرت عمر،پھر عثمان اور پھر علی رضی اللہ عنہم افضل ہیں۔اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ((لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلًا لَّاتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ،وَ لٰکِنْ أَخِي وَ صَاحِبِي)) ’’اگر میں کسی کو رازداں دوست(خلیل)بناتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور ساتھی ہیں۔‘‘[2] عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:((کُنَّا فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم لَا نَعْدِلُ بِأَبِي بَکْرٍ أَحَدًا،ثُمَّ عُمَرَ ثُمَّ عُثْمَانَ،ثُمَّ نَتْرُکُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم لَا نُفَاضِلُ بَیْنَہُمْ)) ’’ہم نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ابوبکر کے برابر کسی(صحابی)کو نہیں سمجھتے تھے،پھر عمر،پھر عثمان رضی اللہ عنہم کا درجہ سمجھتے تھے،پھر نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو(ان کے حال پر)چھوڑ دیتے(یعنی)کسی کو کسی پر فضیلت نہ دیتے تھے۔‘‘ [3] سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:((خَیْرُ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا أَبُوبَکْرٍ ثُمَّ عُمَرُ)) ’’اس امت میں نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ افضل ہیں،پھر عمر رضی اللہ عنہ۔‘‘[4] ٭ ایک مسلمان،صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ان تمام فضائل و خصائل اور مناقب کا اقرار و اعتراف کرتا ہے جو کتاب و سنت میں وارد ہیں،مثلاً:ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کی شان و فضیلت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد پہاڑ کو اُس وقت جب وہ ہلنے لگا تھا،مخاطب کر کے فرمایا: ((اُثْبُتْ أُحُدُ!فَإِنَّمَا عَلَیْکَ نَبِيٌّ وَّ صِدِّیقٌ وَّ شَہِیدَانِ))’’احد!ٹھہر جا،تیرے اوپر نبی،صدیق اور دو شہید ہیں۔‘‘[5] سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حق میں فرمایا:((أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُّوسٰی؟)) ’’کیا تم راضی نہیں کہ تم میرے لیے اُسی طرح ہو جس طرح موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔(علیہما السلام)‘‘ [6]
Flag Counter