Maktaba Wahhabi

412 - 692
نہیں ہے تو وہ محتاج ہے،البتہ اسے اگر قرض مل سکتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ قرض حاصل کرے اور اس وقت تک اس کوزکاۃ نہ دی جائے جب تک وہ اپنے علاقے میں غنی ہے۔ تنبیہات: 1: اگر کوئی مسلمان اپنی زکاۃ مذکورہ مصارف میں سے کسی ایک مد میں دے دے تو جائز ہے،البتہ یہ ہے کہ ان مصارف میں اہم اور زیادہ ضروریات والے کو مقدم قرار دے،ہاں اگرزکاۃ کا مال بہت زیادہ ہے اور آٹھ مصارف میں سے ہر نوع پر وہ تقسیم کرے تو زیادہ بہتر ہے۔ 2: جن افراد کا خرچہ کسی کے ذمہ ہے،وہ انھیں اپنی زکاۃ نہیں دے سکتا،جیسا کہ والدین،اولاد اور بیوی،اس لیے کہ اگر یہ محتاج ہوں تو ان کا خرچ ادا کرنا اس پر لازم اور فرض ہے۔ 3: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کو ان کے خصوصی شرف ومقام کی وجہ سے زکاۃ نہیں دی جاسکتی اور ان سے مراد بنو ہاشم،آل علی،آل جعفر،آل عقیل اور آل عباس ہیں،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’إِنَّ الصَّدَقَۃَ لَا تَنْبَغِي لِآلِ مُحَمَّدٍ(صلی اللّٰه علیہ وسلم)إِنَّمَا ھِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ‘ ’’صدقہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جائز نہیں کیونکہ یہ لوگوں(کے مالوں)کی میل ہے۔‘‘ [1] 4: مسلمان اپنی زکاۃ مسلمان سربراہ حکومت کو دے دے تو کافی ہے،چاہے وہ ظالم ہو،اس سے ادائیگی کرنے والے کی ذمہ داری پوری ہو جائے گی،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کے بارے میں فرمایا:’إِذَا أَدَّیْتَھَا إِلٰی رَسُولِي فَقَد بَرِئْتَ مِنْھَا،فَلَکَ أَجْرُھَا،وَإِثْمُھَا عَلٰی مَنْ بَدَّلَھَا‘ ’’جب تو اسے میرے قاصد کو ادا کر دے تو تو بری ہو گیا اور گناہ گار وہ ہے جو اس میں تبدیلی کرے گا۔‘‘[2] 5: کافر اور فاسق کوزکاۃ نہ دی جائے،مثلاً:نماز کا تارک اور احکام اسلام کا مذاق اڑانے والا،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِ ھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِ ھِمْ))’’زکاۃ مسلمان اغنیاء سے لی جائے اور مسلمان فقراء کو دی جائے۔‘‘ [3] اسی طرح دولت مند اور کمانے والے تندرست آدمی کو بھی زکاۃ نہ دی جائے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’لَاحَظَّ فِیھَا لِغَنِيٍّ وَّلَا لِقَوِيٍّ مُّکْتَسِبٍ‘ ’’اس میں غنی اور کمانے والے طاقت ور کا کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘[4] اس سے مراد وہ کمانے والا ہے جس کی کمائی اس کی ضرورت کے لیے پوری ہو جائے۔
Flag Counter