Maktaba Wahhabi

411 - 692
میں ہے،اسے اوراس کی قوم کو اسلام کی ترغیب کے لیے زکاۃ دینی چاہیے۔ اسی طرح یہ حصہ مصلحت کی خاطر ہر اس شخص کے لیے استعمال ہو سکتا ہے جو کسی بھی صورت میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے،جیسا کہ بعض صحافت سے تعلق رکھنے والے اصحاب قلم وغیرہ۔ 5: گردن آزاد کرانے میں:اس مصرف سے مراد مسلمان غلام ہے کہ زکاۃ کے مال سے اسے خرید کر آزاد کیا جائے یا غلام ’’مکاتب‘‘٭ ہے توزکاۃ سے اس کی کتابت کی اقساط(اس کے مالک کو)ادا کی جائیں تاکہ وہ آزاد ہو جائے۔ 6: مقروض:اس سے مراد ایسا صاحب قرض ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں مقروض نہیں ہوا اور اس کی ادائیگی بہت مشکل ہو تو اسے زکاۃ سے اس قدر دیا جائے کہ قرض کی ادائیگی اس کے لیے آسان ہو جائے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((إِنَّ الْمَسْأَلَۃَ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لِثَلَاثَۃٍ:لِذِي فَقْرٍ مُّدْقِعٍ،أَوْلِذِي غُرْمٍ مُّفْظِعٍ،أَوْ لِذِي دَمٍ مُّوجِعٍ)) ’’سوال صرف تین قسم کے لوگوں کے لیے جائز ہے،فقیر کے لیے جو بہت شدت میں ہے۔مقروض(غارم)کے لیے جسے قرض کی وجہ سے بہت پریشانی ہے اور خون کی دیت کی ذمہ داری دینے والا،جو اس کے لیے دکھ کا باعث بن گئی ہے۔‘‘ [1] 7: اللہ کے راستہ میں:اس سے مراد اسلامی جہادہے جو اللہ کے دین کی عظمت اور اعلاء کے لیے کیا جارہا ہے،بنابریں غازی کوزکاۃ دی جاسکتی ہے،چاہے وہ غنی ہے۔اس کے علاوہ اس مد میں حج اور عمرہ کرنے والے بھی شامل ہیں،ان لوگوں کو ضرورت کی بنا پر زکاۃ دی جاسکتی ہے۔٭ 8: ابن سبیل:اس سے مراد وہ مسافر ہے جو اپنے شہر سے دور ہو،سفر میں ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کوزکاۃ دی جاسکتی ہے،چاہے وہ اپنے علاقے میں غنی ہی ہو،اس لیے کہ اگر سفر میں اس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مال ٭ مکاتب:وہ غلام جس نے اپنے مالک سے مخصوص رقم کے عوض آزادی حاصل کرنے کا تحریری معاہدہ کر رکھا ہو۔واللہ اعلم(ع،ر) ٭ مصارف زکاۃ میں سے ایک مصرف ’’في سبیل اللّٰہ‘‘ ہے،اس سے مراد اللہ کے راستے میں لڑنے والا غازی اور حج یا عمرے کو جانے والا شخص ہے۔متاخرین میں سے بعض نے فی سبیل اللہ کے مفہوم کو وسعت دیتے ہوئے مساجد،شفاخانوں،مدارس اور یتیم خانوں کی تعمیر اور دیگر رفاہی کام وغیرہ،مثلاً:پل اور سڑکوں وغیرہ کی تعمیر کو بھی اس میں شامل کیا ہے لیکن یہ موقف محل نظر ہے،سلف میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔تاہم مدارس کے مسافر یا نادار طلبہ،نادار یتیموں پر مالِ زکاۃ خرچ کرنا درست ہے،نیز اس سے نادار مریضوں کا علاج کرنا بھی صحیح ہے جبکہ بعض علماء نے بیان کیا ہے کہ فی سبیل اللہ سے مراد مجاہدین فی سبیل اللہ ہی ہیں لیکن جہاد کا مقصد چونکہ اعلائے کلمۃ اللہ ہے،اس لیے اس کے مفہوم میں ہر وہ عمل شامل ہے جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کیا جائے،چنانچہ تعلیم و تعلم،مدارس دینیہ اور دینی کتابوں کی نشرواشاعت وغیرہ اسی قبیل سے ہیں،لہٰذا ان پر زکاۃ خرچ کی جا سکتی ہے۔واللہ اعلم۔تفصیل کے لیے دیکھیے:أبحاث ھیئۃ کبار العلماء:95/1،وتمام المنۃ للإمام الألباني،ص:382،والموسوعۃ الفقھیۃ لحسین بن عودۃ:120/3،وفقہ الزکاۃ للقرضاوي۔(عبدالولی)
Flag Counter