Maktaba Wahhabi

527 - 692
سے کوئی چیز ضائع ہو جائے تو یہ ضامن نہیں ہے،الّا یہ کہ ثابت ہو جائے کہ اس نے کوتاہی کی ہے یا اس سلسلے میں زیادتی کا مرتکب ہوا ہے۔ 8: اجرت تو معاہدہ ہوتے ہی لازم ہو جاتی ہے،البتہ ادائیگی اس وقت لازم ہو گی جب اجرت پر مزدور رکھنے والا شخص اس سے مطلوبہ فائدہ حاصل کرے یا اس کا کام مکمل ہو جائے الّا یہ کہ ادائیگی عقد کے ساتھ ہی مشروط ہو،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:’لٰکِنَّ الْعَامِلَ إِنَّمَا یُوَفّٰی أَجْرَہُ إِذَا قَضٰی عَمَلَہُ‘ ’’لیکن کام کرنے والے کاریگر کو اس کی مزدوری کام پورا کرنے پر پوری دے دی جائے۔‘‘[1] 9: مستاجر(کاریگر)مزدوری وصول کرنے کے لیے آجر(مالک)کی چیز روک سکتا ہے،اگر اس چیز میں اس نے کام کیا ہے،مثلاً:اس نے کپڑے کی سلائی کی ہے اور اگر اس چیز میں اس کے کام اور عمل کی تاثیر نہیں ہے،مثلاً:اس نے اجرت پر کسی کا سامان وغیرہ اٹھایا ہے تو وہ مالک کا سامان نہیں روک سکتا بلکہ طے شدہ جگہ پر سامان پہنچا کر اجرت طلب کرے گا۔ 10: ایک شخص جو طب کا ماہر نہیں ہے،کسی کا اجرت پر علاج کرتا ہے یا دوا دیتا ہے اور نقصان کر دیتا ہے تو وہ ضامن ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’مَنْ تَطَبَّبَ وَلَا یُعْلَمُ مِنْہُ طِبٌّ فَھُوَ ضَامِنٌ‘ ’’جو علاج کرتا ہے اور طب میں وہ معروف نہیں ہے تو وہ ضامن ہے۔‘‘[2] امام ابو داود رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا:ہمیں معلوم نہیں کہ یہ صحیح ہے یا نہیں۔٭ جعالہ کا بیان: ٭ جعالہ کی تعریف: لغت میں ’’جِعالہ‘‘اس معلوم و متعین عوض کو کہتے ہیں جو کسی کو ایک معین کام(اگرچہ مجہول الوصف ہو)کرنے پردیا جائے فاعل کوئی بھی ہو،مثلاً:ایک شخص کہتا ہے:جو مجھے یہ دیوار بنا کر دے گا،میں اس کو اتنی رقم دوں گا۔اب جو شخص بھی یہ دیوار تعمیر کر دے گا،اس مال کا مستحق ہو جائے گا،وہ مال جتنا بھی ہو۔ ٭ جعالہ کا حکم: شرعاً انعام دینا جائز ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان میں ہے:﴿وَلِمَن جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ﴾ ’’اور جو’ ’پیالہ‘‘لا دے گا،اس کو ایک اونٹ کا اٹھایا ہوا غلہ ملے گا اور میں اس کا ضامن ہوں۔‘‘[3] ٭ طبیب وہ ہے جو اسباب مرض اور ادویہ کی معرفت رکھتا ہو اور اساتذہ،فن طب میں اس کی مہارت کی شہادت دیتے ہوں اور انھوں نے اسے پیشۂ طب اختیار کرنے کی اجازت دی ہو تو اسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ طب میں معروف ہے۔(مؤلف)
Flag Counter