Maktaba Wahhabi

129 - 692
باب:1 آدابِ نیت مسلمان کی نظر میں ’’نیت‘‘ کا معاملہ دینی و دنیاوی امور میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے،اس لیے کہ سب اعمال اسی کی بنیاد پر سرزد ہوتے ہیں اور اسی کے اعتبار سے وہ قوی یا ضعیف،درست یا غلط قرار پاتے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہر عمل کی نیت اور اس کا طریقۂ کار درست ہو،یہ چیز کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ارشادِ باری ہے: ﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾’’اور انھیں حکم دیا گیا تھا کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں۔‘‘ [1] اور فرمایا:﴿قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ﴾ ’’آپ کہہ دیجیے:بے شک مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خلوص(نیت)کے ساتھ اللہ کی عبادت کروں۔‘‘ [2] ارشادِ نبوی ہے:’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ،وَ إِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیئٍ مََّا نَوٰی‘ ’’یقینا اعمال کا اعتبار نیتوں سے ہے اور ہر مرد کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے نیت کی۔‘‘ [3] نیز آپ نے فرمایا:’إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ إِلٰی صُوَرِکُمْ وَ أَمْوَالِکُمْ،وَلٰکِنْ یَّنْظُرُ إِلٰی قُلُوبِکُمْ وَ أَعْمَالِکُمْ‘ ’’بے شک اللہ تمھاری صورتوں اوراموال کو نہیں دیکھتا،وہ تو صرف تمھارے دلوں اورعملوں کو دیکھتا ہے۔‘‘[4] دلوں کو دیکھنے سے مراد نیت کو پرکھنا ہے کہ یہی انسان کو عمل پر آمادہ کرتی ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مَنْ ہَمَّ بِحَسَنَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کُتِبَتْ لَہُ حَسَنَۃٌ)) ’’جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا اور پھر اسے پایۂ تکمیل تک نہ پہنچا سکا تو اس کے لیے نیکی لکھ دی جائے گی۔‘‘ [5] تومعلوم ہوا کہ اچھے جذبے اور ارادے سے جو عمل کیا جائے گا،وہ اجر و ثواب کا مستوجب ہو گا۔اور اس سے نیت صالحہ کی اہمیت بھی واضح ہو جاتی ہے۔مزید فرمایا:
Flag Counter