Maktaba Wahhabi

262 - 692
3: امام بخاری رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ میں طلب حدیث کے لیے ایک شخص کے پاس گیا،دیکھا کہ اس کا گھوڑا بھاگ رہا تھا اور وہ شخص اپنے دامن میں ’’جو‘‘کا اشارہ دے کر اسے پکڑنا چاہتا تھا۔میں نے کہا:تیرے دامن میں ’’جو‘‘ ہیں ؟ اس نے کہا:نہیں،میں صرف گھوڑے کو پکڑنے کے لیے ایسا کر رہا ہوں۔امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا:جو شخص جانوروں کے ساتھ جھوٹ بول رہا ہے،میں اس سے حدیث حاصل نہیں کروں گا۔صدق کے میدان میں جناب امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ طرز عمل کتنا بلند ہے۔[1] باب:10 جود و کرم ’’سخاوت‘‘مسلمان کی صفت اور ’’ کرم‘‘اس کی علامت ہے۔مومن کنجوس اور بخیل نہیں ہوتا،اس لیے کہ کنجوسی اور بخل دو مذموم صفتیں ہیں۔جو خباثت نفس اور دل کی تاریکی کی بنیاد پر پیدا ہوتی ہیں اور مومن کا نفس و دل ایمان اور عمل کی وجہ سے پاک اور روشن ہوتا ہے،بنا بریں طہارت نفس اور دل کی روشنی،کنجوسی اور بخل کی ضد ہیں،لہٰذا مسلمان کنجوس اور بخیل نہیں ہوتا۔ کنجوسی دل کی ایک عام بیماری ہے،جس سے شاید ہی کوئی انسان بچ سکا ہو۔ہاں،مومن کو اللہ تعالیٰ ایمان اور نماز وزکاۃ جیسے اعمال کی وجہ سے اس گندی بیماری کے شر سے بچا لیتا ہے تاکہ اسے فلاح اور اخروی کامیابی کے لیے تیار کرے۔ارشاد ربانی ہے: ﴿إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا﴿١٩﴾إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا﴿٢٠﴾وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا﴿٢١﴾إِلَّا الْمُصَلِّينَ﴿٢٢﴾الَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ﴿٢٣﴾وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ﴿٢٤﴾لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ﴾ ’’بے شک انسان بے صبرا پیدا کیا گیا ہے،جب اسے شر پہنچے تو جزع و فزع کرتا ہے اور خیر پہنچے تو نہ دینے والا ہوتا ہے مگر نماز گزار جو ہمیشہ نماز کا التزام رکھتے ہیں اور وہ لوگ کہ ان کے مالوں میں سوالی اور محروم لوگوں کا حق معلوم و مقرر ہے۔‘‘[2] اور ارشاد فرمایا:﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا﴾ ’’ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لو کہ اس کے ساتھ انھیں پاک اور ان کا تزکیہ کرتے رہو۔‘‘[3] نیز فرمان الٰہی ہے:﴿وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾’’اور جو اپنے نفسوں کی کنجوسی سے بچا لیے گئے،یقینا یہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘[4]
Flag Counter