Maktaba Wahhabi

403 - 692
صَدَقَۃٌ،وَلَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ مِّنَ الإِْبِلِ صَدَقَۃٌ‘ ’’کھجوروں کے پانچ وسق سے کم میں صدقہ نہیں ہے اور چاندی میں پانچ اوقیہ سے کم میں صدقہ نہیں ہے اور پانچ عدد اونٹ سے کم میں صدقہ نہیں ہے۔‘‘[1] 3: تازہ استعمال ہونے والے پھلوں اور سبزیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زکاۃ ثابت نہیں ہے۔البتہ فقراء اور ہمسایوں کو اس میں سے دے دینا مستحب ہے،اس لیے کہ اللہ رب العزت کا یہ فرمان عام ہے:﴿أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ﴾ ’’جو تم پاک مال کماتے ہو اور جو ہم نے تمھارے لیے زمین سے نکالا ہے،اس میں سے خرچ کرو۔‘‘[2] 4: عورتوں کے زیورات پر بھی راجح قول کے مطابق زکاۃ ہے،اس لیے کہ احادیث میں اس کا ثبوت ملتا ہے۔[3] 5: قیمتی جواہرات جیسا کہ زمرد یاقوت،موتی اور دیگر جواہرات جب تجارت کی غرض سے حاصل شدہ ہیں تو ان میں سامان تجارت کی طرح زکاۃ لازم ہوگی۔ 6: گھریلو سامان،مکانات،کارخانے،گاڑیاں اور گھوڑے میں بھی زکاۃ نہیں ہے،اس لیے کہ شارع سے ان میں زکاۃ کا حکم نہیں آیا ہے۔ نصابِ زکاۃ اور اس کی شرائط: 1.سونا: سونے میں زکاۃ ادا کرنے کی شرط یہ ہے کہ اگر بیس دینار ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس میں چالیسواں حصہ واجب ہے،یعنی بیس دینار میں سے نصف دینار،اس سے زائد کا اسی حساب سے ادا کرنا لازم ہے۔ 2. چاندی: چاندی کا نصاب دو سو درہم ہے اور اس میں پانچ درہم(چالیسواں حصہ)ہے،بشرطیکہ اس پر ایک سال گزر چکا ہو۔ فائدہ:اگر ایک شخص کے پاس نہ تو سونے کا پورا نصاب ہے اور نہ ہی چاندی کا،البتہ اگر دونوں کو اکٹھا کر لیا جائے تو نصاب بن جاتا ہے تو اس صورت میں دونوں کو اکٹھا کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے،لہٰذا ان میں زکاۃ نہیں ہے۔ 3. سامانِ تجارت: سال گزرنے پر اس کی نقد قیمت بنالی جائے،اگر نصاب پورا ہو جائے تو اڑھائی روپے فی صد
Flag Counter