Maktaba Wahhabi

133 - 692
’’تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی عظمت کا اعتقاد نہیں رکھتے،حالانکہ اس نے تمھیں مختلف حالات میں پیدا کیا ہے؟‘‘[1] ارشادِ عالی ہے:﴿وَيَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ﴾ ’’اور وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہو۔‘‘ [2] ارشادِ ربانی ہے:﴿وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ ۚ وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ﴾ ’’اور تم کسی بھی حال میں ہو یا قرآن پڑھ رہے ہو یا تم کسی بھی کام میں مگن ہو مگر ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں جب تم اس میں مصروف ہوتے ہو اور زمین و آسمان کی ذرہ برابر چیز بھی تیرے رب کے علم سے چھپی نہیں رہ سکتی۔‘‘ [3] اور ایک مسلمان جب یہ سوچتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر ہر لحاظ سے قادر ہے اور وہ اس سے بھاگ نہیں سکتا،اس کے بغیر کوئی جائے پناہ نہیں ہے تو وہ ضرور اپنے سارے معاملات اسی کے سپرد کرے گا،اسی کے آگے گرے گا اور اسی پر بھروسا کرے گا اور یہی اپنے خالق و پروردگار کا ادب ملحوظ رکھنا ہے۔آخر یہ کیسا ادب و احترام ہے کہ بندہ اس سے بھاگنے کی کوشش کرے جس سے بھاگنا ناممکن ہے،اور اپنے معاملات اس کے سپرد کرے جسے اسباب عاریہ کے بغیر کوئی طاقت و قوت اور تصرف حاصل نہیں ہے۔ارشادِ گرامی ہے:﴿مَّا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا﴾’’(اللہ)زمین پر رینگنے والی ہر چیز کو اس کی چوٹی(پیشانی کے بالوں)سے پکڑے ہوئے ہے۔‘‘ [4] نیز فرمایا:﴿فَفِرُّوا إِلَى اللّٰهِ ۖ إِنِّي لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ مُّبِينٌ﴾ ’’پس اللہ ہی کی طرف دوڑو،بے شک میں اس کی طرف سے تمھیں واضح ڈرانے والا ہوں۔‘‘ [5] مزید فرمایا ہے:﴿وَعَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾’’اور اگر تم مومن ہو تو اللہ ہی پر بھروسا اور توکل کرو۔‘‘ [6] اور ایک مسلمان نظریہ رکھتا ہے کہ اس کے تمام امور میں اللہ جل جلالہ کی کرم نوازیاں اور مہربانیاں شاملِ حال ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جملہ مخلوق اسی کی رحمت سے مالا مال ہے تو وہ اپنے لیے امید و توقع کے جذبات پیدا کرے گا اور انتہائی عجزو انکسار کے ساتھ اپنے پروردگار سے مزید فیضانِ رحمت کی درخواست کرے گا اور اس سلسلے میں اپنے اچھے کلمات اور نیک اعمال کو وسیلہ بنائے گا۔یہ اس کے حقیقی مالک،اللہ تعالیٰ کے حضور ادب و احترام کی ایک اور صورت ہے،اس لیے کہ جس کی رحمت اس قدر وسیع ہے جو ہر ایک چیز پر حاوی ہے تو اس سے ناامید ہوکر اپنے آپ کو محروم تصور کرنا ادب نہیں ہوگا۔فرمانِ الٰہی ہے:﴿وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ﴾’’اور میری رحمت نے ہر چیز کوگھیر رکھا ہے۔‘‘ [7] فرمانِ باری ہے:﴿اللّٰهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ﴾’’اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔‘‘ [8]
Flag Counter