Maktaba Wahhabi

138 - 692
مزید فرمایا:’مَا أَذِنَ اللّٰہُ لِشَيْئٍ مَّا أَذِنَ لِنَبِيٍّ حَسَنِ الصَّوْتِ یَتَغَنّٰی بِالْقُرْآنِ‘ ’’اللہ تعالیٰ کسی بات(کو سننے)کے لیے(اتنی خوشی سے)کان نہیں لگاتا جتنا(خوش ہوکر)خوش آواز پیغمبرکے قرآن کے لیے کان لگاتا ہے جو اچھی آواز سے اسے پڑھتا ہے۔‘‘[1] 5: دکھاوے اور ریاکاری کی خواہش پیدا ہونے کا اندیشہ ہو یا کسی نمازی کی نماز میں خلل واقع ہونے کا خطرہ ہو تو تلاوت آہستہ آواز سے کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے:’اَلْجَاہِرُ بِالْقُرْآنِ کَالْجَاہِرِ بِالصَّدَقَۃِ‘ ’’بلند آواز سے تلاوت کرنے والا،اس شخص جیسا ہے جو اعلانیہ خیرات کرتا ہے۔‘‘ [2] اور یہ بات واضح ہے کہ خیرات پوشیدہ کرنی بہتر ہے،اِ لاَّ یہ کہ ظاہر کرنے میں کوئی(دینی)فائدہ مدنظر ہو،جیسے لوگوں کو خیرات کرنے پر آمادہ کرنا وغیرہ،تلاوت قرآن کا حکم بھی یہی ہے۔ 6: قرآن کے معنی و مفہوم پر غور و تدبر کرتے ہوئے تلاوت کرے،تعظیم ملحوظ رکھے،حضورِ قلب کے ساتھ پڑھے اور معانی و اسرار پر پوری توجہ دے۔ 7: تلاوت کے وقت غفلت و اعراض سے بچے اور اس کے احکام کی مخالفت کرنے والا نہ بنے،کہیں ایسا نہ ہو کہ خود ہی اس کی لعنت کا مستحق بن جائے،مثلاً:جب ایک انسان اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھتا ہے:﴿لَّعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظَّالِمِينَ﴾’’خبردار!اللہ کی لعنت ظالموں پر ہے۔‘‘ [3] اور یہ فرمان:﴿فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ﴾’’پھر ہم اللہ کی لعنت جھوٹے لوگوں پر کر دیں۔‘‘ [4] تو اگر پڑھنے والا خود ظالم اور جھوٹا ہو تو یہ لعنت اسی پر واقع ہو گی۔اللہ محفوظ رکھے۔آمین! 8: تلاوت کرتے وقت پوری کوشش کرے کہ اللہ والوں کی صفات اس میں پیدا ہو جائیں اور انھی کی علامتیں اس میں نظر آئیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:قرآن پاک کی تلاوت کرنے والا رات میں پہچانا جاتا ہے جب لوگ سو رہے ہوتے ہیں،دن میں پہنچانا جاتا ہے جب لوگ کھا پی رہے ہوتے ہیں،رونے سے اس کی پہچان ہوتی ہے جبکہ لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں،پرہیزگاری اس کی علامت ہے۔وہ خاموش طبع ہے۔خشوع و خضوع سے متصف ہے اور اللہ کے خوف و رجا کی کیفیت اس پر طاری ہے۔جبکہ عام لوگ ان صفاتِ عالیہ سے عاری ہوتے ہیں۔[5]
Flag Counter