Maktaba Wahhabi

253 - 692
’اَلْحَیَائُ لَا یَأْتِي إِلَّا بِخَیْرٍ‘ ’’حیا خیر ہی لاتا ہے۔‘‘[1] مزید فرمایا:’اَلْحَیَائُ کُلُّہٗ خَیْرٌ‘ ’’حیا پورے کا پورا خیر و بھلائی ہے۔‘‘[2] حیا کی ضد بے حیائی ہے جو قول وفعل میں برائی کا نام ہے جس سے کلام میں درشتی پیدا ہوتی ہے۔مسلمان سخت کلام،برا،سنگدل اور خشک مزاج نہیں ہوتا،اس لیے کہ یہ جہنمیوں کی صفات ہیں جبکہ مسلمان اللہ کے فضل سے اہل جنت میں سے ہے۔بنا بریں اس کی عادات میں سختی اور بدمزاجی نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس پر شاہد ہے: ’اَلْحَیَائُ مِنَ الإِْیمَانِ،وَالإِْیمَانُ فِي الْجَنَّۃِ،وَالْبَذَائُ مِنَ الْجَفَائِ،وَالْجَفَائُ فِي النَّارِ‘ ’’حیا ایمان سے ہے اور ایمان بہشت میں لے جائے گا اور بے حیائی جفا سے ہے اور جفا جہنم کا موجب ہے۔‘‘[3] حیا میں مسلمان کے لیے بہترین نمونہ اولین وآخرین کے سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔[4] صحیح بخاری میں ہے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند چیز دیکھتے تو ہم اس کے آثار آپ کے چہرے پر نمایاں پاتے تھے۔‘‘[5] اس صفت کی حفاظت اور اس کے پرچار میں مسلمان کی ہر وقت کوشش وسعی قائم رہتی ہے اور وہ لوگوں کی خیر ونیکی کی طرف رہنمائی کرتا رہتا ہے،اس لیے کہ حیا ایمان کا جز ہے اور ایمان فضائل اور نیکیوں کا مجموعہ اور عنصر ہے۔صحیح بخاری میں ہے کہ ایک شخص اپنے بھائی کو وعظ کر رہا تھا کہ تجھے اتنا حیا دار نہیں ہونا چاہیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’دَعْہُ،فَإِنَّ الْحَیَائَ مِنَ الإِْیمَانِ‘ ’’اسے رہنے دے،حیا ایمان کا جز ہے۔‘‘[6] اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کو حیا کی بقا کی تلقین فرمائی اور اسے ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے،خواہ اسے اپنے بعض حقوق سے محروم ہی کیوں نہ ہونا پڑے کیونکہ بعض حقوق سے دستبردار ہو جانا بے حیا بننے سے کہیں بہتر ہے،اس لیے کہ حیا ایمان کا جزو،اعلیٰ انسانی اقدار کی نشانی اور نیکیوں کا سر چشمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم کرے جس کا بیٹا شہید ہو گیا تو وہ نقاب اوڑھ کر اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے آئی تو لوگوں نے اس کے اس حالت میں نقاب اوڑھنے کو حیرت سے دیکھا تو کہنے لگی:
Flag Counter