Maktaba Wahhabi

407 - 692
4: دو آدمیوں کے جانور ایک ہی گلے میں اکٹھے ہیں،جبکہ ان کا چرواہا ایک ہے تو دونوں کے جانوروں کی اکٹھی زکاۃ لی جائے گی،پھر وہ آپس میں حساب کرلیں گے،مثلاً:ایک کی چالیس بکریاں ہیں اور دوسرے کی اسی۔اگر صدقہ وصول کرنے والا چالیس کے مالک کی بکریوں میں سے ایک بکری لے جائے تو وہ دوسرے سے دو تہائی بکری کی قیمت وصول کرے گا۔ یاد رہے کہ زکاۃ سے فرار کی نیت سے دو ریوڑوں کی بکریوں کو اکٹھا کرنا اور ایک ریوڑ کی بکریوں کو الگ الگ کرنا ناجائز ہے،اس لیے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مکتوب گرامی میں لکھا ہے:’وَلَا یُجْمَعُ بَیْنَ مُتَفَرِّقٍ وَّلَا یُفَرَّقُ بَیْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْیَۃَ الصَّدَقَۃِ،وَمَا کَانَ مِنْ خَلِیطَیْنِ فَإِنَّھُمَا یَتَرَاجَعَانِ بَیْنَھُمَا بِالسَّوِیَّۃِ‘ ’’اور صدقہ کے ڈر سے متفرق کو اکٹھا اور مجتمع(اکٹھے)کو جدا نہ کیا جائے۔اور جو مال دو شریکوں کا ہو وہ دونوں(زکاۃ کی ادائیگی کے بعد)آپس میں برابر برابر حساب کر لیں۔‘‘[1] 5: زکاۃ میں جانوروں کے چھوٹے بچے نصاب میں شمار تو ہوتے ہیں مگر وہ زکاۃ میں نہیں دیے جائیں گے،اس لیے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عامل کو حکم دیا تھا:’تَعُدُّ عَلَیْھِمْ بِالسَّخْلَۃِ۔وَلَا تَأْخُذْھَا‘’’بھیڑ کا بچہ شمار کر مگر اس کوزکاۃ میں نہ لینا۔‘‘ [2] 6: زکاۃ میں بوڑھا اور عیب دار جانور نہ لیا جائے،اس لیے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:’لَا تُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَۃِ ھَرِمَۃٌ وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ وَّلَا تَیْسٌ‘ ’’صدقہ میں بوڑھی،بھینگی اور ریوڑ کا بکرا(جس سے نسل کَشی کا کام لیا جائے)نہ لیا جائے۔‘‘ [3] اسی طرح لوگوں کا قیمتی مال بھی نہ لیا جائے،جیسا کہ حاملہ بکری جس کے بچے کی ولادت قریب ہے اور گلے کا وہ نر اور مادہ جو خوراک کے لیے تیار کی جارہی ہے اور اسی طرح دودھ والی بکری بھی،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’فَإِیَّاکَ وَکَرَائِمَ أَمْوَالِھِمْ‘’’لوگوں کے قیمتی اموال سے اپنے آپ کو دور رکھنا۔‘‘ [4]
Flag Counter