Maktaba Wahhabi

519 - 692
نقدی کی صورت میں مال جمع کرو ا کے کمپنی میں حصہ دار بنے،اس لیے کہ سامان کی قیمت مجہول ہے(معلوم نہیں ہے)اور معاملات میں جہل شرعاً ممنوع ہے،اس لیے کہ اس میں حقوق کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے اور باطل ذریعے سے مال کھانے کا امکان بھی۔ 5: ہر حصہ دار اپنے حصے کے تناسب سے کام کرے،جس کا 1/4(چوتھائی)حصہ ہو،وہ چار دنوں میں ایک دن کام کرے اور اگر کام کرنے کے لیے مزدور رکھنے ہوں تو اس کی مزدوری حصہ داروں کے حصص کی نسبت سے دی جائے گی۔ 6: اگر کوئی حصہ دار فوت ہو جائے یا پاگل ہو جائے تو شرکت ختم ہو جاتی ہے،اس کے بعد ’’اولیائے میت‘‘اور’ ’اولیائے مجنون‘‘ کو اختیار ہے،چاہیں تو سابق شرطوں پر اشتراک بحال رکھیں یا ختم کر دیں۔ ٭ شرکۃ الابدان: اس میں دو یا زیادہ اشخاص باہمی سمجھوتہ کرتے ہیں کہ کسی کام کرنے میں،مثلاً:سلائی کرنے یا کپڑے وغیرہ دھونے میں ہر ایک جو بھی مزدوری کرے گا،سب اس میں برابر کے حصہ دار ہوں گے یا جس نسبت سے طے کریں۔اس کے جواز کی دلیل یہ حدیث ہے کہ عبداللہ،سعد اور عمار رضی اللہ عنہم نے بدر کے دن سمجھوتہ کیا کہ آج جو ہمیں مال غنیمت حاصل ہو گا،اس میں سب برابر کے حصہ دار ہوں گے۔چنانچہ عمار اور عبداللہ رضی اللہ عنہما کوئی چیز نہ لائے اور سعد رضی اللہ عنہ دو قیدی لے آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مشارکت کو بحال رکھا۔[1] ٭ شرکۃ الابدان کے احکام: 1: کسی ٹھیکیدار یا صاحب اجرت سے اجرت طلب کرنے اور لینے کا دونوں حصہ داروں کو اختیار ہے۔ 2: اگر ایک بیمار ہو جائے یا کسی عذر کی بنا پر کام پر نہ آ سکے تو جو ایک کمائے گا،اس میں دونوں حصہ دار ہوں گے۔ 3: اگر غیر حاضری کی مدت یا بیماری طویل ہو جائے تو تندرست حصہ دار اس کے بجائے ایک مزدور رکھ لے جس کی مزدوری وہ بیمار یا غائب کے حصے میں سے دے گا۔ 4: اگر ان میں سے ایک حصہ دار کام کے لیے آنے سے معذرت کر لے تو دوسرے کو اس کی شرکت فسخ کر دینے کا اختیار ہوگا۔ ٭ شرکۃ الوجوہ: دو یا زیادہ اشخاص ایک چیز اکٹھے خریدتے ہیں اور پھراسے فروخت کر دیتے ہیں،اس میں جو منافع ہو گا،وہ دونوں برابر برابر لیں گے،اگر نقصان ہوا تو وہ بھی اسی طرح۔ ٭ شرکۃ المفاوضہ: یہ ’’شرکت عنان‘‘’’وجوہ‘‘اور ’’ابدان‘‘کے علاوہ’ ’مضاربت‘‘کو بھی شامل ہے۔اس میں ہر حصہ دار اپنے ساتھی کو مالی اور بدنی اشتراک کے جملہ اختیارات تفویض(سپرد)کر دیتا ہے بلکہ ہر شریک خرید و فروخت اور
Flag Counter