Maktaba Wahhabi

543 - 692
4: امام کو یہ بھی اختیار ہے کہ بازار،کھلے میدان اور وسیع راستوں میں کسی کو فائدہ حاصل کرنے کے لیے کوئی جگہ مختص کر دے اگر عام لوگوں کا اس سے نقصان نہ ہوتا ہو،اس طرح وہ شخص فائدہ حاصل کرنے میں دوسروں سے فائق ہو گا مگر مالک نہیں قرار پائے گا۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’مَنْ سَبَقَ إِلٰی مَالَمْ یَسْبِقْہُ إِلَیْہِ مُسْلِمٌ فَھُوَ لَہُ‘ ’’جو شخص کسی ایسی جگہ پہلے پہنچے،جہاں کوئی دوسرا مسلمان نہیں پہنچا تو وہ اس کا زیادہ مستحق ہے۔‘‘[1] 5: امام نے جس کو کوئی جگہ دی ہے یا امام کے دیے بغیر وہ اس پر قابض ہو گیا ہے تو وہ کسی کو نقصان نہ پہنچائے،یعنی دوسروں کے لیے بھی رکاوٹ نہ پیدا کرے،اس لیے کہ آپ کا فرمان ہے:’لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ فِي الإِْسْلَامِ‘ ’’اسلام میں نقصان کرنا یا کرانا درست نہیں ہے۔‘‘[2] تنبیہ:وادی کا پانی بہہ کر آ جائے تو پہلے اوپر والا فائدہ حاصل کرے،پھر اس کے بعد والا۔کھیتوں کے اختتام تک اسی پر عمل کیا جائے،ا لّا یہ کہ پانی پہلے ختم ہو جائے۔ اگر سیلاب کے پہلے ریلے کے قریب قریب کھیت ہیں تو کھیتوں کے بڑے چھوٹے کے حساب سے پانی تقسیم کر لیا جائے۔اگر اس طرح سمجھوتہ نہ ہو سکے تو قرعہ اندازی کر لی جائے،اس لیے کہ امام ابن ما جہ رحمہ اللہ نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے: ((أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم قَضٰی فِي شُرْبِ النَّخْلِ مِنَ السَّیْلِ أَنَّ الْأَعْلٰی فَالْأَعْلٰی یَشْرَبُ قَبْلَ الْأَسْفَلِ،وَیُتْرَکُ الْمَائُ إِلَی الْکَعْبَیْنِ،ثُمَّ یُرْسَلُ الْمَائُ إِلَی الْأَسْفَلِ الَّذِي یَلِیہِ،وَکَذٰلِکَ حَتّٰی تَنْقَضِيَ الْحَوَائِطُ أَوْ یَفْنَی الْمَائُ)) ’’نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیلاب کے پانی سے کھجوروں کی سیرابی کے بارے میں فیصلہ کیا کہ اوپر والا نیچے والے سے پہلے پانی پلائے اور ٹخنوں تک پانی بھرے،پھر نیچے کی طرف پانی چھوڑ دے،یہاں تک کہ باغ مکمل(سیراب)ہو جائیں یا پانی ختم ہو جائے۔‘‘[3]
Flag Counter