Maktaba Wahhabi

561 - 692
وارث کے لیے وصیت نہیں۔‘‘ [1] 4: جن ’’مدات‘‘ میں وصیت کی ہے،اگر تہائی 1/3 سب کو پورا نہیں کرتی تو حصہ برابر برابر سب ’’مدات‘‘ میں خرچ کیا جائے،جیسا کہ قرض خواہوں کے لیے کیا جاتا ہے۔ 5: قرض کی ادائیگی کے بعد وصیت لاگو کی جائے،اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:((أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم قَضٰی بِالدَّیْنِ قَبْلَ الْوَصِیَّۃِ)) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(نفاذ)وصیت سے پہلے قرض کی ادائیگی کا فیصلہ دیا ہے۔‘‘[2] اور اس لیے کہ قرض کی ادائیگی فرض ہے اور وصیت نفل اور مستحب ہے اور واجب نفل پر مقدم ہوتا ہے۔ 6: مجہول یا معدوم کی وصیت بھی ہو سکتی ہے،اس لیے کہ یہ تبرع اور احسان ہے مگر وہ مجہول یا معدوم چیز حاصل ہوجائے تو وصیت کا نفاذ ہو گا،ورنہ نہیں،مثلاً:ایک شخص وصیت کرتا ہے کہ میری بکری کا بچہ جو پیدا ہو گا،فلاں کو دیا جائے یا درختوں کی آمدنی میں سے اتنا دیا جائے۔وغیرہ وغیرہ۔ 7: وصیت کرنے والے کی زندگی اور موت کے بعد وصیت قبول ہو سکتی ہے اور وصیت کرنے والے کو یہ بھی اختیار ہے کہ اگر مال یاحقوق یا یتیموں کے حصے ضائع ہونے کا خطرہ ہے تو ’’وصیت‘‘ ختم کر دے۔ 8: کسی شخص کو اگر کسی معین چیز میں وصیت کی گئی ہو تو وہ اس کو تبدیل نہیں کر سکتا،اس لیے کہ یہ بلا اجازت ہے اور لوگوں کے حقوق میں بلا اجازت تصرف کرنا شرعًادرست نہیں ہے۔ 9: وصیت کے نفاذ کے بعد اگر میت پر قرض کا انکشاف ہو تو جسے وصیت کی گئی ہے وہ اس قرض کا ضامن نہیں ہے،اس لیے کہ وہ اس کے علم میں نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس بارے میں کوتاہی کا مرتکب ہوا ہے۔ 10: ایک معین چیز میں وصیت ہوئی ہے تو اس چیز کے تلف ہو جانے پر وصیت باطل ہو جائے گی اور اس کے دوسرے مال میں اس کا نفاذ نہیں ہو گا۔ 11: ایک شخص نے وارث کے لیے وصیت کر دی،بعض ورثاء اس کی اجازت دیتے ہیں اور بعض ورثاء اجازت نہیں دیتے تو جو اجازت دیتے ہیں،ان کے حصہ میں وصیت نافذ ہو گی اور جو اجازت نہیں دیتے،ان کے حصے میں وصیت کانفاذ نہیں ہو گا۔٭ ٭ اجازت دینے والوں کے اصل حصوں کا حجم بوجہ نفاذ وصیت کم ہو جائے گا جبکہ اجازت نہ دینے والوں کو مکمل شرعی حصے ملیں گے۔(ع،ر)
Flag Counter