Maktaba Wahhabi

158 - 668
پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی اور کوئی فخر نہیں ۔ میں پہلا شخص ہوں گا جو جنت کے دروازے کو کھٹکھٹاؤں گا اور مجھ کو اس میں داخل کیا جائے گا اور میرے ساتھ فقیر مہاجرین ہوں گے اور کوئی فخر نہیں اور میں پہلے اور پچھلے لوگوں میں اللہ کے نزدیک بہت ذی عزت و عظمت ہوں گا۔‘‘ ( مشکاۃ، باب فضائل سید المرسلین) [1] پہلے انبیا علیہم السلام کے ساتھ سیدالعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل کا مقابلہ کرنے کی یہ حدیث اجازت دیتی ہے، بشرطیکہ بوقت مقابلہ ان کے فضائل کو قائم رکھا جائے۔ اگر مقابلے میں ان کے درجات میں نقص لازم آئے تو اس سے انبیا علیہم السلام کی توہین لازم آتی ہے اور یہ صریح کفر ہے۔ فافھم ہم اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے یہ ثابت کریں گے کہ اس کا مضمون عین احادیثِ صحیحہ کے مطابق ہے۔ پس اس حدیث کو بطور شاہد ذکر کرنا جائز ہوا۔ یہ حدیث اس لیے بھی قابلِ احتجاج ہے کہ اس میں جو انبیا علیہم السلام کے اوصاف مذکور ہیں ، وہ قرآن و احادیثِ صحیحہ میں پائے جاتے ہیں ، مثلاً: آدم علیہ السلام کے برگزیدہ ہونے کی قرآن بھی تصدیق کرتا ہوا فرماتا ہے: ’’بے شک اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو چن لیا۔‘‘ [آل عمران: ۳۳] اسی طرح صحیح مسلم کی جلد ۱ باب اثبات الشفاعۃ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث طویل ہے جس میں شفاعت کا ذکر ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلیم اللہ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح اللہ و کلمہ بیان کیا گیا ہے۔ فخرعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حدیث میں صریحاً تو حبیب اللہ نہیں فرمایا، مگر دلالتاً ضرور کہا ہے، مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تحت عرش مقام محمود میں سفارش کرنا اور اللہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کو قبول کر کے جنت میں داخل کرنا اور حمد کے جھنڈے کا ذکر اس کے ماسوا بہت سی حدیثوں میں آیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پہلے جنت کے دروازے کو کھٹکھٹانا اور اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھولا جانا جس کی تصدیق مندرجہ ذیل حدیث میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’قیامت کے دن میں جنت کے دروازے پرآؤں گا اور اسے کھلوانا چاہوں گا۔ جنت کا خازن کہے گا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں ؟ میں کہوں گا: میں محمد ہوں !خازن کہے گا کہ مجھے آپ
Flag Counter