Maktaba Wahhabi

161 - 668
قرآن کو، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی ہے، روح کہا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی نبی کی وحی کو روح نہیں کہا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے روح اللہ ہونا ثابت ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حدیث روح اللہ بتلاتی ہے۔ ’’حبیب‘‘ فعیل کے وزن پر صفتِ مشبہ کا صیغہ ہے، جو فاعل اور مفعول کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ فاعل کے معنی محب، یعنی محبت کرنے والا اور مفعول کے معنی محبوب، یعنی محبت کیا ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور خدا تعالیٰ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب جانتا تھا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انبیاو ملائکہ اور ایمانداروں سے حسبِ مدارج سب سے زیادہ محبت تھی اور وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام خلائق سے محبوب تر جانتے تھے۔ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حرف تنبیہ سے حبیب اللہ کہنے کا یہ مطلب ہے کہ خصوصیاتِ مفضلہ کے ما سوائے ان نبیوں میں جن کا حدیث میں ذکر ہے، جو اوصاف و کمالات فرداً فرداً پائے جاتے ہیں ، وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی سب کے سب داخل کر دیے گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود جامع کمالات تھا۔
Flag Counter