Maktaba Wahhabi

191 - 668
طرح کبھی وہ اجتہادی غلطی میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مجتہد کے پاس بھی جب کبھی کسی مسئلے کے متعلق علم نہیں ہوتا تو وہ اجتہاداً کسی شریعت کے مسئلے پر اجتہاد کرتا ہوا کوشش سے مسئلہ بیان کر دیتا ہے۔ کبھی اس کا مسئلہ شریعت کے مطابق اور کبھی بتقاضائے بشریت اس کے خلاف، پس دونوں صورتوں میں اسے اجتہاد کا ثواب مل جاتا ہے۔ صحیح مسئلے کی دو نیکیاں اور غلط کی ایک نیکی ملتی ہے۔ (مشکاۃ، کتاب الإمارۃ) [1] پس جن نبیوں سے اجتہاداً غلطی ہو گئی، وہ ایک نیکی کو حاصل کرنے کی و جہ سے ان نبیوں سے افضل ہیں ، جن سے اجتہادی غلطی نہیں ہوئی۔[2] اب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت اور تنزیہ کے دلائل بیان کرتے ہیں ۔ ناظرین غور سے سنیں ! چوں کہ عصمت اور تقدیس تمام نبیوں میں یکساں اور برابر ہے، لہٰذا ایک کی تنزیہ بیان کرنے سے دوسروں کی بھی تنزیہ ثابت ہو جائے گی۔ چنانچہ نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کے سرداروں نے جب ان پر طعن کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ ہم تجھے گمراہی میں دیکھتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ اے قوم! مجھ میں کسی قسم کی گمراہی نہیں ، اس لیے کہ میں جہانوں کے رب کی طرف سے رسول ہوں ، یعنی خدا کی رسالت اور گمراہی چونکہ دو متضاد چیزیں ہیں ، لہٰذا ان کا ایک وجود میں جمع ہونا محال ہے۔ ضلالت ہی گناہ ہے تو رسالت کے ساتھ اس کے نہ جمع ہونے کی صورت میں رسول کا گناہ کرنا محال ہوا اور اس کا معصوم ہونا لازمی طور پر ثابت ہوا۔ اسی طرح ہود علیہ السلام کی قوم کے سردار کافروں نے جب ان پر کم عقل ہونے کا طعن کیا تو انھوں نے جواب میں فرمایا کہ اے قوم! مجھ میں کسی قسم کی کم عقلی نہیں ہے، اس لیے کہ میں جہانوں کے رب کی طرف سے رسول ہوں ۔ (الأعراف: ۶۶،۶۷)، یعنی رسول علم اور عقل دونوں میں کامل ہوتا ہے۔ علم، عقل اور کم عقلی کا ایک وجود میں جمع ہونا محال ہے۔ جب رسول سے کم عقلی، جو گناہ کے سرزد ہونے کا سبب ہے، دُور اور الگ رہی تو اس کا گناہ سے معصوم رہنا ظاہر ہے۔
Flag Counter