Maktaba Wahhabi

193 - 668
خصوصاً چھوٹے سے گناہ کا بھی ارادہ کرنا محال ہے۔ چوں کہ انبیا علیہم السلام خدا کے برگزیدہ انسان اور گناہ سے پاک تمام مخلوق سے افضل ہیں ، لہٰذا قرآن کریم میں ان کے حق میں اکثر پاکیزگی کے الفاظ ذکر کیے گئے ہیں ، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ ﴾ [آل عمران: ۱۷۹] ’’یعنی خدا اپنے رسولوں کو چن لیتا ہے۔‘‘ ﴿ اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ﴾[الحج: ۷۵] ’’یعنی خدا فرشتوں اور انسانوں میں سے رسولوں کو برگزیدہ کرتا ہے۔‘‘ ﴿ اِِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْم رَّسُوْلٍ﴾ [الجن: ۲۷] ’’یعنی خدا پیغمبروں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت میں خصوصیت کے ساتھ فرمایا: ﴿ وَ یُزَکِّیْکُمْ﴾ [البقرۃ: ۱۵۱] یہ ایک ایسی عظیم الشان صفت ہے، یعنی اے لوگو! رسول تمہیں اپنی تعلیم سے پاک کرتا ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ رسول خود پاک ہے، بلکہ فرمایا کہ وہ دوسروں کو پاک کرنے والا ہے۔ مزکی کو تزکیہ کا ایسا اعلیٰ درجہ حاصل ہوتا ہے جس سے دوسرے لوگ بھی پاکیزگی حاصل کرلیتے ہیں ۔ عقل بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خدا کے پیغمبر ہر گناہ کی آلودگی سے پاک ہونے چاہییں ۔ اگر ہادی ہی گناہ گار ہو جائیں تو دوسروں کو کس طرح ہدایت کر سکتے ہیں ؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جائز اور آسان کام کو، اگر اس میں گناہ نہ ہوتا، اختیار کر لیا کرتے تھے اور اگر اس میں گناہ ہوتا تو سب لوگوں کی بہ نسبت اس سے نفرت کرتے ہوئے بہت دور رہتے۔ (بخاري و مسلم، مشکاۃ باب في أخلاقہ وشمائلہ صلی اللّٰه علیہ وسلم ) [1] گناہ کے قریب تک نہ جانے کا نام ہی عصمت و تنزیہ ہے۔ تاریخ الخلفاء [2]میں بحوالہ مسند امام احمد حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مسندِ خلافت پر براجمان ہوئے تو انھوں نے صحابہ کی بڑی جماعت کے سامنے اعلان کیا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معصوم اور بے عیب
Flag Counter